این آر او یا اے۔۔۔ نہ رو

309

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ کوئی این آر او لینا چاہتا ہے نہ کوئی دے رہا ہے۔ نواز شریف قانونی راستے کے سوا کوئی ڈیل نہیں کریں گے۔ دھاندلی کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ انتخابی دھاندلی سب کے سامنے ہے۔ لوگ پیسے کے تھیلے بھر کر جہاز میں گھوم رہے ہیں۔ میاں صاحب نے بجا فرمایا کہ نواز شریف قانونی راستے کے سوا کوئی ڈیل نہیں کریں گے لیکن یہ نہ کہیں کہ کوئی این آر او لینا اور کوئی دینا نہیں چاہتا۔ ارے ہر کوئی ہر وقت این آر او کے چکر میں ہے جس کو جب جہاں سے این آر او ملے لے لیتا ہے۔ لیکن این آر او ہے کیا۔ شہباز شریف فرماتے ہیں کہ قانونی راستے کے سوا کوئی ڈیل نہیں کریں گے لیکن این آر او تو ہے ہی غیر قانونی۔ کسی بھی فرد کو ناجائز فوائد پہنچانے کے لیے قوانین میں ترمیم کی جاتی ہے پھر اسے این آر او کا نام دے دیا جاتا ہے۔ 2007ء میں جنرل پرویز مشرف نے دباؤ میں آکر این آر او جاری کیا تھا جس میں 8 ہزار مقدمات ختم کیے گئے تھے، یعنی 8 ہزار ایسے افراد کو مقدمات سے بری کردیا گیا جن کے خلاف سنگین الزامات تھے۔ کوئی عدالتی کارروائی نہیں ہوئی، کوئی پولیس تفتیش بھی نہیں کی گئی۔ بیک جنبش قلم مجرم کو محرم بنادیا گیا۔ اپنے زمانہ طالب علمی میں دوستوں سے مذاق میں ہم کہا کرتے تھے کہ ہم کبھی اصولوں پر سودے بازی نہیں کرتے۔ یہ جنرل ضیا الحق کا زمانہ تھا۔ ہم کہا کرتے تھے کہ ہم اصولوں پر سودے بازی اس لیے نہیں کرتے کہ پہلے سودے بازی کرلیتے ہیں پھر ان کی روشنی میں اصول وضع کرلیتے ہیں۔ پھر سودے بازی کیسے ہوگی۔ اسی کا دوسرا نام این آر او ہے۔
یہ این آر او کی بات کہاں سے آگئی۔ جب کہ حکومت اور عدلیہ پر اب تو کوئی دباؤ ہی نہیں ہے، حکومت اور میڈیا کامیاب ہوگئے ہیں، عدالتی فیصلوں، میڈیا کے تجزیوں اور مختلف اداروں کی ملی بھگت سے مسلم لیگ کا مرکز و صوبوں میں صفایا ہوتا نظر آرہا ہے، ایسے میں کسی این آر او کی بات کون کرے گا۔ ہمارے خیال میں شہباز صاحب نے یہ غلط فرمایا کہ کوئی این آر او لینا نہیں چاہتا۔ انہیں یہ کہنا چاہیے کہ کوئی دینا نہیں چاہتا۔ ہم تو لینے کو تیار ہیں، اسے قانونی ڈیل کہا جائے گا، آج کل تو قانونی ڈیل میں زیادہ وقت بھی نہیں لگتا۔ فیصل آباد سے پرائیویٹ طیارہ اسلام آباد کے لیے اڑان بھرتا ہے، راستے میں قانونی ڈیل ہوتی ہے، اسٹامپ پیپر لکھے جاتے ہیں، دستخط ہوتے ہیں اور ڈیل ہوگئی۔ ایسے میں ایک صاحب کے پی کے وزیراعلیٰ نامزد ہوئے ہیں، 6 سال میں پارٹی کے اہم لوگوں میں شمار ہونے لگے انہوں نے اپنے بارے میں زبردست دلائل دیے ہیں، کہتے ہیں کہ میرے بارے میں الٹی سیدھی باتیں پھیلائی جارہی ہیں، ڈھائی ارب روپے کی آبائی جائداد ہے اور جہاں تک 18 لاکھ کی بات ہے وہ غلطی سے اکاؤنٹ میں آگئے تھے۔ لیجیے اچھا این آر او ہے، فریال تالپور کی مشکل بھی حل ہوگئی، وہ بھی کہہ سکتی ہیں کہ میرے اکاؤنٹ میں 2 کروڑ غلطی سے آگئے تھے اور غلطی سے کہیں چلے گئے، لیجیے مسئلہ حل۔ اسے بھی این آر او کہا جاسکتا ہے۔ این آر او کی ایک قسم سنگین جرائم کے ملزم کا اسپتال جانا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر عاصم اسپتال گئے، شرجیل انعام میمن اسپتال گئے، نواز شریف بھی اسپتال گئے لیکن بوجوہ واپس جیل جانا پسند کیا اس کی ڈیل کیا تھی۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آیا۔ اب زرداری صاحب کے قریبی ساتھی حسین لوائی کو دل کا دورہ پڑا ہے اور کیپٹن صفدر بھی جیل سے اسپتال منتقل ہوگئے، یہ بھی کوئی این آر او ہوتا ہے جو جیل کے بجائے اسپتالوں کے آرام دہ بستر اور نرسوں کے درمیان ملزم یا مجرم کو مریض بنا کر رکھتا ہے۔ این آر او اسے بھی کہا جاسکتا ہے کہ جن لوگوں کو سب سے بڑا ڈاکو اور ملک کے لیے زہر قرار یا تھا ان کے ساتھ حکومت سازی کی خاطر تلواریں نیام میں رکھنے کا حکم جاری ہوگیا۔ بہرحال میاں شہباز شریف کے پاس این آر او ایسا کوئی موقع نظر نہیں آرہا وہ لینا بھی چاہیں تو کس سے لیں گے۔ جب ڈیل ہورہی تھی تو وہ تیار نہیں تھے اب ڈیل نہیں ہورہی ہے تو وہ ڈیل کی باتیں کررہے ہیں۔ اسے کہتے ہیں اے نہ رو۔۔۔ کیوں کہ جسے مل گیا اس کے لیے یہ این آر او ہے اور جسے نہیں ملا اس کے لیے مشورہ ہے۔۔۔ کہ نہ رو۔