سرسید اور تضاد

399

سرسید اگر ہمارے زمانے میں ہوتے اور انتخابات میں حصہ لیتے تو ان کا انتخابی نشان تضاد ہوتا۔ کسی ایک انتخاب میں نہیں ہر انتخاب میں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرسید تضاد کے بغیر لقمہ بھی نہیں توڑتے۔ بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سرسید تضاد کھاتے ہیں، تضاد پیتے ہیں، تضاد اوڑھتے ہیں، تضاد بچھاتے ہیں۔ اس اعتبار سے اگر ہم سرسید کو برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کا Mr Contra diction کہیں تو غلط نہ ہوگا۔
انسانی تاریخ کے ہر اہم مفکر کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ پوری زندگی کی تشریح و تعبیر ’’اصول واحد‘‘ سے کرکے دکھا دے تا کہ اس کی فکر میں تضاد نہ پیدا ہو۔ تضاد انسانی فکر کا نقص ہے، عیب ہے۔ مثلاً تمام مذہبی مفکرین پوری زندگی کو اصول توحید کے ذریعے بیان کرتے ہیں۔ کارل مارکس نے معاشیات کے ذریعے پوری زندگی کی تشریح و تعبیر مہیا کی۔ فرائیڈ نے جنس کو زندگی کا محوری اصول بنایا اور اس کے ذریعے زندگی کا مفہوم متعین کیا۔ سرسید کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اصول واحد کے ذریعے زندگی کی تشریح و تعبیر نہیں کرپاتے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان کی زندگی کا کوئی مرکزی حوالہ ہی نہیں ہے۔ انہیں مذہب کی ’’عادت‘‘ کو ترک کرنے سے خوف آتا ہے۔ دوسری جانب وہ مغربی فکر کے مجنوں ہیں اور مغربی فکر اس مجنوں کی لیلیٰ ہے۔ بعض لوگوں کی ذہنی صلاحیت اور علم غیر معمولی ہوتا ہے اور وہ ان دونوں کی قوت سے دو متضاد اصولوں کے امتزاج کا ’’تاثر‘‘ پیدا کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ مگر سرسید کی ذہانت اور علم اتنے بڑے نہیں ہیں کہ وہ یہ ’’کارنامہ‘‘ انجام دے سکیں۔ وِٹ مین کا ایک مشہورِ زمانہ فقرہ ہے۔
I Contradict My Self Because I am large, I contian multitudes.
ترجمہ:۔ میں اپنی تردید کرتا ہوں کیوں کہ میں وسیع اور ہمہ جہت ہوں۔
وٹ مین نے اس فقرے کے ذریعے اپنے تضادات میں عظمت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر بیچارے سرسید یہ بھی نہیں کرسکتے۔ کیوں کہ نہ وہ وسیع ہیں نہ وہ ہمہ جہت ہیں۔ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ اگر سرسید دس بائی بارہ کے کمرے میں بھی کھڑے ہوں تو تضاد ان کے ساتھ ہوگا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو تضاد سرسید کا ’’اصول حیات‘‘ اور ’’اصول فکر‘‘ ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے:
اور ہوں گے جنہیں درکار ہے آساں طلبی
میں تو مرجاؤں اگر ساتھ مصیبت نہ رہے
سرسید اس شعر کو پڑھتے تو کہتے۔ وہ اور لوگ ہوں گے جنہیں وحدت فکر درکار ہوگی۔ تضاد میرے ساتھ نہ ہو تو میرا دم گھٹ کر رہ جائے۔ یعنی سرسید کے لیے تضاد وہی کام کرتا ہے جو ہر جاندار کے لیے آکسیجن انجام دیتی ہے۔ وہ لوگ خوش قسمت ہوتے ہیں جنہیں اپنے تضادات کا علم ہوجاتا ہے مگر سرسید جب تک زندہ رہے انہیں اپنے کسی تضاد کا علم نہ ہو سکا۔ اس کا اثر سرسید کے متاثرین تک پر پڑا ہے۔ سرسید کے متاثرین بھی ابھی تک سرسید کے تضادات پر مطلع نہیں، چناں چہ وہ اپنے تضادات سے بھی آگاہ نہیں۔ بہرحال آئیے اب سرسید کے چند تضادات کا تجزیہ کرتے ہیں۔
سرسید نے ایک جگہ غلامی کے حوالے سے فرمایا ہے۔
’’غلامی تمام اخلاق انسانی کو خراب کرنے والی ہے۔ غلاموں کے حالات اور ان کی عقل اور عادات انسانی حالت سے تنزل کرکے حیوانی حالت میں آجاتے ہیں۔ اور جو لوگ غلام بناتے ہیں وہ جبر اور ناانصافی سے انسان کو، جو اشرف المخلوقات ہے، تنزل کی حالت میں ڈالتے ہیں‘‘۔
(افطار سرسید۔ ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 180)
سرسید نے یہاں غلامی کا لفظ Slavery کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ لیکن غلامی، غلامی ہے وہ سیاسی غلامی ہو یا جسمانی غلامی۔ تہذیبی غلامی ہو یا نفسیاتی غلامی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سرسید جسمانی غلامی کو تو ناپسند کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کی وجہ سے انسان حیوان بن جاتے ہیں مگر سرسید مغرب کی سیاسی، تہذیبی، عسکری اور علمی غلامی کو سراہتے ہیں۔ اس کا جشن مناتے ہیں۔ اس پر خوشی کے مارے رقص کرتے نظر آتے ہیں۔ چناں چہ انہوں نے برصغیر پر انگریزوں کے تسلط کو خدا کی مرضی، نعمت اور رحمت قرار دیا ہے اور دعا کی ہے کہ برصغیر پر انگریزوں کی حکومت ہمیشہ قائم رہے۔ یہی نہیں انہوں نے غلامی سے نجات کے لیے جہاد کرنے والے لوگوں کو فسادی، غادر یعنی غدر برپا کرنے والے اور حرام زادے قرار دیا ہے۔ تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ انفرادی جسمانی غلامی اس لیے قابل برداشت ہوسکتی ہے کہ غلام کا آقا اچھا انسان ہو سکتا ہے۔ لیکن اجتماعی، سیاسی اور تہذیبی غلامی تو غلاموں کے مذہب، تہذیب، تاریخ اور ان کے علوم و فنون تک کو کھا جاتی ہے جیسا کہ مغربی اقوام کی غلامی نے عملاً کیا۔ مگر سرسید ایک جگہ غلامی کے خلاف ہیں اور دوسری جگہ غلامی کے سب سے بڑے محافظ۔ اس حد تک محافظ کہ وہ چاہتے تھے انگریزوں کا تسلط بھی ختم نہ ہو۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ تحریک پاکستان سرسید کے زمانے میں چلتی تو سرسید پوری قوت سے اس کی مخالفت کرتے اور آزادی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو وہی گالیاں دیتے جو انہوں نے مجاہدین کو دی ہیں۔
ہم اپنے ایک گزشتہ کالم میں دکھا چکے ہیں کہ سرسید اجماع کے اصول کے خلاف ہیں۔ اس میں صرف علما کے اجماع ہی کا نہیں صحابہ کرام کے اجماع کا بھی انکار ہے۔ مگر ایک جگہ سرسید نے اجماع پر مہر تصدیق ثبت فرمائی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے۔
’’مسلمانوں کا مقرر کیا ہوا ایک مسئلہ یہ ہے کہ اجماع ثانی اجماع اوّل کو منسوخ کردیتا ہے اور اجماع ثانی شروع ہونے کے لیے ضروری ہے کہ کوئی نہ کوئی شخص اجماع اوّل سے اختلاف کرے، پس وہ شخص میں ہوں۔ اور کیا عجب اس پر اجماع ہوجائے اور اجماع ثانی اجماع اوّل کو منسوخ کردے‘‘۔
(افکار سرسید۔ ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 182)
اصول ہے کہ ایک چیز ایک جگہ غلط ہے تو دوسری جگہ بھی غلط ہوگی۔ ایک گروہ کے لیے غلط ہے تو دوسرے گروہ کے لیے بھی غلط ہوگی۔ ایک عہد کے لیے غلط ہے تو دوسرے عہد کے لیے بھی غلط ہوگی۔ مگر سرسید کے لیے ایک چیز پر اجماع درست ہے مگر دوسری چیز پر اجماع غلط ہے مگر اجماع ثانی درست ہوسکتا ہے۔ ان کی نظر میں صحابہ کرام کا اجماع ناقابل قبول ہے مگر سرسید نے صحابہ کے اجماع سے جو اختلاف کیا ہے اس پر اگر اجماع ہوجائے تو وہ بہترین چیز ہوگی۔ اس پر کہا جاسکتا ہے کہ سرسید عقل کے اندھے ضرور ہیں مگر گانٹھ کے پورے ہیں۔
سرسید منکر حدیث تھے۔ یہاں تک کہ وہ صحیح مسلم اور صحیح بخاری کو بھی مشتبہ سمجھتے تھے۔ ایسے آدمی کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی تحریر میں کہیں بھی حدیث کا ذکر نہ کرے اس لیے کہ وہ تو حدیث کو مستند ہی نہیں سمجھتا۔ لیکن آئیے سرسید کی تحریر کا ایک اقتباس پڑھتے ہیں۔ سرسید نے لباس کے مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا۔
’’تشابہ ایک قوم کا دوسری قوم سے بلاشبہ زیادہ تر لباس پر منحصر ہوتا ہے مگر خود رسول خدا صلعم نے یورپ کی قوم کا اور خاص طور پر رومن کیتھولک میں جو مروج لباس ہے پہنا ہے۔ بخاری کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول خدا صلعم نے یہودیوں کی پوشاک بھی پہنی ہے۔ مسلم کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے رسول خدا صلعم نے خاص آتش پرستوں کا بھی لباس پہنا ہے‘‘۔
(افکار سرسید۔ ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 173)
سرسید نے جب یہ باتیں لکھیں تو برصغیر میں یہ مسئلہ زیر بحث تھا کہ مسلمانوں کو انگریزوں کا لباس پینٹ شرٹ کوٹ پہننا چاہیے یا نہیں؟۔ چوں کہ سرسید یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ پینٹ شرٹ پہننے میں کوئی حرج نہیں اس لیے وہ اسناد کے لیے صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی طرف دوڑے۔ ایک مسلمان کو یہی کرنا چاہیے۔ کوئی مسئلہ درپیش ہو تو اسے قرآن و حدیث سے سند لانی چاہیے۔ مگر ایسا کرتے ہوئے سرسید بھول گئے کہ وہ تو کئی مقامات پر حدیث علم کو سند کی حیثیت سے مشتبہ قرار دے چکے ہیں۔
سرسید ایک مقام پر فرما چکے ہیں کہ ہم اسلام کے سلسلے میں ملاؤں اور مولویوں کی آرا کو تھوڑی دیکھیں گے ہم تو قرآن و سنت کو دیکھیں گے۔ سنت کا قصہ یہ ہے کہ سرسید منکر حدیث ہیں اور سنت کا معاملہ یہ ہے کہ سرسید نے سیرت طیبہ کی تمام کتب کو الف لیلہ قرار دے کر رد کردیا ہے۔ وہ قرآن کے معجزات کو بھی نہیں مانتے، یہاں تک کہ انہوں نے قرآن مجید کے Facts کا انکار کیا ہے۔ اس سلسلے کی ایک مثال یہ ہے کہ قرآن مجید کی نص صریح یا واضح حکم سے ثابت ہے کہ ایک مسلمان ضرورت کے تحت چار شادیاں کرسکتا ہے۔ مگر سرسید نے اپنی ایک تحریر میں قرآن مجید کی اس نص صریح کا مذاق اڑایا ہے۔ فرماتے ہیں۔
’’شارع نے ایک سے زیادہ بیویاں کرنے کی اجازت کو نہایت محدود اور خاص حالت کے لیے مخصوص کردیا ہے کیوں کہ اس نے فرما دیا ہے کہ اگر تم کو خوف ہو کہ عدل نہ کرسکوگے تو ایک ہی کرو۔ہاں بلاشبہ اس اجازت سے اوباش اور شہوت پرست آدمیوں کو جن کی زندگی کا منشا ٹٹی کی اوٹ میں شکار کھیلنا ہے ایک حیلہ ہاتھ آگیا۔ جو تصور ازدواج اس زمانے میں رائج ہے کہ جہاں ذرا دولت ہوئی دو، دو، تین تین اور چار چار جو روئیں کرنے لگے۔ جہاں مقدس بزرگ مولوی ہوتے اللہ میاں کے سانڈ بنے۔ یہ سب اوباشی کے ڈھنگ ہیں‘‘۔
(افکار سرسید۔ ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 184-185)
ظاہر ہے کہ ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت انہی لوگوں کے لیے ہے جو عدل کرنے کی اہلیت کے ساتھ ساتھ ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی جسمانی، نفسیاتی اور مالی طاقت رکھتے ہوں۔ اس حکم میں ہمارے خالق نے اس حقیقت کو پیش نظر رکھا ہے کہ کچھ نہ کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کی جسمانی اور نفسیاتی ضرورت کے لیے ایک بیوی کافی نہیں ہوگی۔
باقی صفحہ9نمبر1
شاہنواز فاروقی
ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کا پیدا کرنے والا بھی خدا ہی ہے مگر سرسید اللہ تعالیٰ کی حکمت، رحمت اور اجازت پر نظر ہی نہیں ڈالتے۔ انہیں ایک سے زیادہ بیوی رکھنے والے تمام لوگ ’’اوباش‘‘ اور ’’شہوت پرست‘‘ دکھائی دیتے ہیں۔ سرسید یہ کہتے ہوئے بھول جاتے ہین کہ سیدنا ابوبکرؓ، سیدنا عمرؓ کی کئی بیویاں تھیں۔ سیدنا علیؓ نے سیدنا فاطمہؓ کے انتقال کے بعد چار یا پانچ شادیاں کیں۔ خود رسول اکرمؐ کی ازدواج کی تعداد گیارہ تھی۔ روایات کے مطابق سیدنا سلیمانؑ کی 100 بیویاں تھیں۔ ہندوؤں کی روایات کے مطابق شری کرشن کی گیارہ ہزار سے زیادہ بیویاں تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو رزق حلال کمانے کی تائید کی ہے مگر کچھ لوگ رزق حرام بھی کماتے ہیں مگر اس بنیاد پر رزق کمانے کے حکم اور ضرورت کا مذاق نہیں اڑایا جاسکتا۔ اصول ہے کہ اصول کو اس کی سطح پر جا کر سمجھنے کی کوشش کی جائے جو لوگ ایسا نہیں کرتے وہ اصول کو سرسید کی طرح اپنی پست سطح پر گھسیٹ لاتے ہیں اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔