کیا یہی تبدیلی ہے!

293

عوام تبدیلی کے متمنی تھے اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان تبدیلی کی علامت بن کر رونما ہوئے، قوم نے انہیں نجات دہندہ سمجھ لیا اور الیکشن میں کامیابی سے ہمکنار کیا مگر قوم نے ان کے تبدیلی کے نعرے کو بھرپور پزیرائی نہیں دی گویا حکمرانی کا حق آزمائشی عرصہ ہے شاید اسی لیے خان صاحب وزیراعظم ہاؤس میں رہائش پزیر ہونا نہیں چاہتے۔ خان صاحب اپنی ہر تقریر میں کہا کرتے تھے کہ مخلوط حکومت نہیں بنائیں اگر انہیں واضح اکثریت نہ ملی تو اپوزیشن میں بیٹھنا پسند کریں گے۔ ہماری سیاسی روایت ہے کہ سیاست دان اپنی شکست تسلیم نہیں کرتے، ہار سے دوچار ہونے والا ہر سیاست دان شکست کا ذمے دار خفیہ ہاتھ کو قرار دیتا ہے اور اب بھی یہی کچھ ہورہا ہے لیکن سب سے شدید ردعمل مولانا فضل الرحمن کی طرف سے آیا ہے وہ دوبارہ الیکشن کا مطالبہ کررہے ہیں۔ چند نوجوان اسی موضوع پر گفتگو کررہے تھے، پی ٹی آئی کے ایک سرگرم حامی نے مولانا سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہمیشہ جیتے آرہے تھے، ہار کے صدمے نے ان کی حالت کو ابتر کردیا ہے، خدا! انہیں حوصلہ دے اور اپنا فضل کرے تا کہ وہ فضل الرحمن ہی رہیں۔ یہ لیکچر سن کر ایک صاحب نے کہا یہ وہ تبدیلی نہیں جس کا انتظار تھا۔ 2013ء کے الیکشن میں عمران خان صاحب اپنی ہار کی وجہ 35 پنکچر بتاتے تھے مگر 2018ء میں تو ہر پولنگ اسٹیشن پر پنکچر لگانے والے بیٹھے تھے۔ اس تبصرے کو زیادتی قرار دیا گیا تو جواباً کہا گیا کہ یہ ہم نہیں کہتے، عمران خان صاحب کے مشیر خاص اور یار غار شیخ رشید کا کہنا کہ موجودہ الیکشن کا کریڈٹ آرمی چیف، چیف جسٹس اور الیکشن کمشنر کو جاتا ہے اور شیخ صاحب گھر کے بھیدی ہیں ویسے اس حقیقت کو تسلیم کرلینے میں کوئی حرج نہیں کہ عمران خان تبدیلی کے نعرے پر عمل کرتے تو ان کی مقبولیت اور شہرت میں مثبت اور حقیقی اضافہ ہوتا۔ اصل تبدیلی یہ ہوتی کہ عمران خان پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو
حکومت بنانے کا موقع دیتے مگر انہوں نے یہ موقع گنوادیا اگر خان صاحب جمہوریت کی سربلندی چاہتے تو وہ ایسا ہی کرتے مگر وہ جمہوریت سے خوف زدہ دکھائی دے رہے ہیں حالاں کہ وہ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ جو پارٹی وفاق میں حکومت بناتی ہے آزاد امیدوار اور چھوٹی موٹی پارٹیاں اسی کا ساتھ دیتی ہیں حکومت سازی میں بھی اسی کی آواز پر لبیک کہتی ہیں، اب رہا یہ سوال کہ مولانا فضل الرحمن دوبارہ الیکشن کا مطالبہ کیوں کررہے ہیں؟ تو اس کی بنیادی اور اہم وجہ یہ ہے کہ جمہوری ممالک میں پچاس فی صد ووٹ لینے والی پارٹی ہی حکومت سازی کی حق دار ہوتی ہے بصورت دوبارہ انتخابات کرائے جاتے ہیں مگر ہمارے ہاں رائج سیاست کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہاں نگراں حکومت کی پخ بھی رائج ہے جو عموماً رائج الوقت سکے کا کام کرتی ہے اگر عمران خان صاحب تبدیلی کے لیے مخلص ہیں تو نگراں حکومت اور آزاد امیدواروں سے ملک و قوم کی جان چھڑانا ہوگی کیوں کہ اس کے بغیر تبدیلی ممکن ہی نہیں۔
ہمارے ہاں کوئی بھی حکومت عوام کی خدمت نہیں کرسکتی کیوں کہ اسے آزاد امیدواروں اور چھوٹی موٹی پارٹیوں کے نمائندوں کے ناز نخرے اٹھانے سے فرصت ہی نہیں ملتی اگر عمران خان ملک و قوم اور جمہوریت کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو انہیں سیاسی پریشر گروپوں سے جان چھڑانا ہوگی اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب پچاس فی صد ووٹ لینے کی روایت کو پروان چڑھایا جائے اور اس کے لیے ایسا قانون بنانا ہوگا جو مقررہ ووٹ نہ لینے کی صورت میں کالعدم قرار پائیں۔