13اگست2018ء کو پاکستان کی عمر71سال ہوجائے گی اور 14اگست کو ہم بحیثیتِ قوم اپنی اکہترویں سالگرہ اور بہتّرواں یومِ آزادی منائیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک فرد بچپن، لڑکپن اور شباب کی عمر سے گزر کر چالیسویں سال میں پختہ عمر میں داخل ہوجاتا ہے، جسے Maturity کہتے ہیں۔ توقع کی جاتی ہے کہ اس عمر میں اس کی ذہنی ساخت پختہ ہوجاتی ہے، ترجیحات کی سَمت طے ہوجاتی ہے اور مقاصد متعین ہوجاتے ہیں۔ اسی ذہنی بلوغت کو قرآنِ کریم نے ’’رُشْد‘‘ سے تعبیر کیا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور بے شک ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی (فکر وعمل) کی راستی عطا کی تھی اور ہم اُن کی (راستیِ فکر) کو جانتے تھے، (الانبیاء: 51)‘‘۔ رُشد کے من جملہ معانی میں سے ایک معنی امام رازی نے یہ لکھے ہیں: ’’دین ودنیا کی بھلائی کے امور کی طرف رہنمائی پانا‘‘، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اور (اپنے زیرِ کفالت) یتیموں کو جانچتے رہو، یہاں تک کہ جب وہ بلوغت کی عمر کو پہنچ جائیں، سو اگر تم اُن میں (اپنے مال کی حفاظت کی) سوجھ بوجھ (رُشد) پاؤ تو اُن کا مال اُن کے سپرد کردو، (النساء: 6)‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ ذمے داری تفویض کرنے کے لیے بلوغت کی عمر تک پہنچنا کافی نہیں ہے، بلکہ اس میں فراست، نیک وبد کی تمیز اور سوجھ بوجھ کا ہونا بھی ضروری ہے، سیدنا لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کے اوباش لوگوں سے کہا تھا: ’’اے لوگو! یہ میری (قوم کی) بیٹیاں ہیں، (رشتۂ نکاح کے ذریعے) یہ تمہارے لیے پاکیزہ ہیں، سو اللہ سے ڈرتے رہو اور مجھے میرے مہمانوں کے سامنے رسوا نہ کرو، کیا تم میں کوئی سلیم الفطرت شخص نہیں ہے (جو قوم کو بدی سے روکے)، (ہود: 78)‘‘۔ یہاں قرآن کریم میں ’’رَجُلِ رَشید‘‘ کے کلمات آئے ہیں۔
الغرض عمر میں بلوغت اور ذہنی پختگی لازم وملزوم نہیں ہیں، کبھی یہ دونوں ایک جگہ جمع ہوجاتی ہیں اور کبھی نہیں۔ کہاجاتا ہے کہ افراد کی ذہنی پختگی کی طرح اقوام کی فکری پختگی کی بھی ایک عمر ہوتی ہے، ایک معیار ہوتا ہے، وہ تجربات کے ذریعے اور ٹھوکریں کھاکر ایک مرحلے میں شعوری بلوغت کی منزل کو پالیتے ہیں۔ پھر وہ بار بار ٹھوکریں نہیں کھاتے، ایک ہی طرح کی غلطیوں کا اعادہ نہیں کرتے، اپنے اور دوسروں کے تجربات سے سیکھتے ہیں اور ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھتے ہیں۔ ان کی پہلی ترجیح نقصان سے بچنا اور ثانوی ترجیح منفعت کا حصول ہوتا ہے، اسی کو فقہی اصطلاح میں ’’مَالَہٗ وَمَا عَلَیْہِ‘‘ یعنی What is for & what is against کہتے ہیں۔
بالغ نظر قیادت اور قوموں کا شِعار یہ ہوتا ہے کہ وہ قومی مفادات کے تحفظ کے لیے ’’حقوق وفرائض‘‘ کی حدود کو جانتے ہیں، کبھی بھی سرخ لائن کو عبور نہیں کرتے، نہایت عجلت میں اقتدار پر فائز ہونے اور منافع حاصل کرنے کے لیے قومی مفادات کو قربان نہیں کرتے، وہ کوئی بھی قدم اٹھانے اور کوئی بھی بات کرنے سے پہلے سو بار سوچتے ہیں کہ یہ ہمارے ملک وملت کے مفاد میں ہے یا نہیں۔ وہ شخصی اور گروہی محبت میں اندھے اور بہرے نہیں بن جاتے، سوچ سمجھ کر بولنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ منہ سے نکلے ہوئے الفاظ، فیصلوں اور اقدامات پر انہیں مستقبل میں شرمندہ نہیں ہونا پڑتا، جیسا کہ بلا تمیزِ حزبِ اقتدار واختلاف آج کل ہماری قیادت کا شِعار ہے، لوگ بتاتے ہیں کہ سوشل میڈیا ان کے تضادات کی داستانوں سے بھرا پڑا ہے۔
پس سوال یہ ہے کہ آیا آزادی کے اکہتر سال بعد بھی ہم بحیثیتِ قوم بالغ نظر ہوچکے ہیں، نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ ہمارے سیاسی رہنما اپنے مخالفین کے قومی اقدامات اور کرتوتوں کا حوالہ دے کر ان کی تضحیک کرتے ہیں، ان کا تمسخر اڑاتے ہیں، ان کو غیرمحبِ وطن اور غدار قرار دیتے ہیں، لیکن پھر جب اُن کی اپنی باری آتی ہے تو انہی غلطیوں کا اعادہ کرتے ہیں، حدیث پاک میں ہے: ’’نبی ؐ نے فرمایا: تم اپنے سے پہلے لوگوں کی روش کی ضرور پیروی کرو گے، خواہ (کسی برائی کی طرف انہوں نے) بالشت بھر یا ہاتھ بھر پیش قدمی کی ہو، یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوئے
ہوں، تو تم بھی ضرور داخل ہوگے، ہم نے عرض کیا: یارسول اللہ! کیا آپ کی مراد یہود ونصاریٰ سے ہے، آپ ؐ نے فرمایا: اور کون ؟، (بخاری)‘‘۔ سو اپنے وطنِ عزیز کے تناظر میں یہی کچھ ہمارے سیاسی رہنما ایک دوسرے کے ساتھ کر رہے ہوتے ہیں، وہ اپنے مخالفین کی تضحیک اور تحقیر واہانت میں اس قدر آگے چلے جاتے ہیں کہ اگر قومی مفاد میں باہم ملنے کی ضرورت پیش آئے، تو اُن میں ایک دوسرے کا سامنا کرنے کی اخلاقی جرأت ہی نہیں رہتی۔ ہم سنتے چلے آئے تھے کہ اسحاق ڈار صاحب منشی ہیں، انہیں معیشت کی کیا خبر، وہ تو صرف بہی کھاتے لکھنا جانتے ہیں، ان پر عائد کیے جانے والے کرپشن کے الزامات الگ موضوع ہیں، یہ حکومتِ وقت، ادارۂ قومی احتساب اور عدالتوں کا کام ہے۔ لیکن اب جنابِ اسد عمر کا بیان نظر سے گزرا کہ آئی ایم ایف کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا جاسکتا ہے، سکوک اور بانڈز بیچے جاسکتے ہیں، توازن ادائیگی کے بحران سے نکلنے کے لیے یہ اقدامات ناگزیر ہیں، سو یہی تو ڈار ڈاکٹرائن ہے، جو گزشتہ پانچ سال زیرِ عمل رہا۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں میں جنابِ اسد عمر اور جنابِ شاہ محمود قریشی ہمارے دستیاب سیاسی اثاثے میں غنیمت ہیں کہ وہ گفتگو کرتے ہوئے تہذیب کے دائرے میں رہتے ہیں، سنجیدگی سے بات کرتے ہیں اور اخلاقیات کی حدود کو عبور نہیں کرتے۔
اسی طرح اسمبلی میں گنتی پوری کرنے کے لیے بے اصولی پر مبنی وہی جوڑ توڑ ہے، ساز باز ہے، اصول ونظریات پسِ پشت چلے گئے ہیں اور وصول ومفادات نگاہوں کے سامنے ہیں۔ نہ کسی نے ایک دوسرے کے خلاف اپنے ماضی کے رویے اور بیانات پر معافی مانگی، نہ رجوع کیا، نہ کسی تاسّف اور ندامت کا اظہار کیا، سو سب چکنے گھڑے ہیں، کاش کہ ہم ماضی کو بھلا کر مستقبل کے لیے سیاست کے شعبے میں اخلاقی اقدار کی نئی شروعات کرسکیں۔ نواز شریف اور آصف علی زرداری صاحبان اپنے سینوں کو سیاسی رازوں کا دفینہ بنائے رکھتے، انہوں نے جو صحیح یا غلط فیصلے کرنے ہوتے، اپنی صوابدید کے مطابق کرلیتے۔ لیکن جنابِ عمران خان نے اس حوالے سے تسلسل کے ساتھ مجلسیں برپا کر رکھی ہیں، اس کا ایک فائدہ میڈیا کو یقیناًہورہا ہے کہ ان کے اسکرین کی رونقیں قائم ہیں۔ صبح ایک کو بشارت سناتے ہیں اور شام کو اس کا نام حرفِ غلط کی طرح مٹا کر دوسرے کو نوید سنانا شروع کردیتے ہیں اور ظاہر یہ کرتے ہیں کہ ان سے زیادہ کوئی باخبر نہیں اور ان کی پہنچ سے باہر کوئی خبر نہیں ہے۔ جنابِ خان کا ایک تاثر یہ تھا کہ وہ خود اعتمادی سے سرشار ہیں، اپنی دانش اور بصیرت سے دوٹوک فیصلے کرتے ہیں، کسی کی رضامندی یا ناراضی کی پروا نہیں کرتے، جیسا کہ کرکٹ کے میدان میں ان کا شعار رہا ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ سیاست نے اُن کے کَس بل نکال دیے ہیں اور انہیں بھی روایتی جوڑ توڑ اور سودے بازی کے مرحلوں سے گزرنا پڑ رہا ہے، وزارتوں کی تقسیم کے لیے اپنے یَک نفری اور چار نفری اتحادیوں کی بھی ناز برداری کرنی پڑ رہی ہے اور وہ جاں نثار جو دو عشروں یا کئی سال سے ان کے شریکِ سفر تھے، وہ بے چارے لیلائے اقتدار کی صورت کو ترس رہے ہیں، پس سیاست کی حقیقتیں اور ستم رانیاں ایسی ہی تلخ ہوتی ہیں، اچھا ہوا کہ بدھ کی شام کو انہوں نے پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ کے نام کا صراحت کے ساتھ اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ کا اشارتاً اعلان کردیا ہے،
اب باقی امیدوار آرام کی نیند سو سکیں گے۔ جو ممالک جمہوری روایات کے اعتبار سے پختہ ہیں، ان میں اگر کسی واحد سیاسی جماعت کو فیصلہ کُن اکثریت حاصل نہ ہو تو بعض چھوٹی جماعتیں حکومت سے باہر رہتے ہوئے بھی اس کی حمایت کرتی ہیں اور حکومت کو گرنے نہیں دیتیں، لیکن یہاں تو ایک سیٹ والا بھی من پسند وزارت کا متمنی ہوتا ہے۔ میں لکھتا رہا ہوں کہ جنابِ عمران خان کو دعوے اور وعدے کرتے ہوئے سیاسی حقائق کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھنا چاہیے، لیکن وہ اس کے قائل ہی نہیں ہیں۔ اب بھی وزیرِ اعظم بننے کے باوجود بجٹ پاس کرنے کے سوا حزبِ اختلاف کی معاونت کے بغیر وہ سادہ قانون پاس کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، کیوں کہ سینیٹ کا کنٹرول کسی اور کے پاس ہے اور بجٹ کے سوا عام قانون سازی کے لیے سینیٹ کی توثیق ضروری ہے، سوائے اس کے کہ مقتدرہ نیشنل ایکشن پلان کی طرح کسی قانون کو پاس کرانے میں دلچسپی لے۔
وزیرِ اعظم ہاؤس میں رہائش کا مسئلہ: وزیر اعظم ہاؤس یا ایوانِ صدر کے نام پر قومی بجٹ میں جو رقوم مختص ہوتی ہیں، اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ پوری رقوم وزیر اعظم یا صدر کی جیب میں چلی جاتی ہیں یا وہ کھا جاتے ہیں۔ ان میں عملے کی تنخواہیں اور ان دونوں گھروں کی نگہداشت، تعمیر ومرمت اور میزبانی وغیرہ کے مصارف شامل ہیں۔ کوئی ان میں رہے یا نہ رہے، جب تک یہ موجود ہیں، ان کی نگہداشت پر اخراجات آتے رہیں گے اور وزیر اعظم کا ضروری عملہ جو کہیں بھی بیٹھے، ان کی تنخواہوں کے مصارف بھی ہوتے رہیں گے۔ لہٰذا جذباتی فیصلے نہیں کرنے چاہییں، اگر ان دونوں گھروں کو تجارتی بنیادوں پر بیچنا ہے،تو کیا ریڈ زون میں کوئی تجارتی سرگرمی ممکن ہے، اگر انہیں کسی تعلیمی ادارے یا لائبریری وغیرہ میں تبدیل کرنا ہے تو کیا اس ایریا میں عام لوگوں کی آزادانہ آمد ورفت ممکن ہوگی۔ موجودہ وزیرِ اعظم ہاؤس بھی قائم رہے اور متبادل جگہ کو دوسرے وزیر اعظم ہاؤس کا درجہ دے دیا جائے تو کیا اخراجات میں اضافہ نہیں ہوگا، پنجاب ہاؤس کی انیکسی کو متبادل وزیر اعظم ہاؤس بنانے پر تبصرے آچکے ہیں کہ وہ بھی پرتیعش ہے، تو فرق کیا ہوا۔ انقلابِ ایران کے بعد سابق بادشاہ کی رہائش گاہ ’’قصرِ سعد‘‘ کو یادگار بنایا گیا ہے، کیا وزیر اعظم ہاؤس کو بھی یادگاربنایا جائے گا۔ اس طرح کے اعلانات شہباز شریف صاحب بھی کرتے رہے کہ وزیرِ اعلیٰ ہاؤس اور گورنر ہاؤس کو آئی ٹی کا مرکز بنایا جائے گا، لیکن وہ کچھ بھی نہ کرسکے، الغرض ہوش سے کام لینا چاہیے، جوش سے نہیں، اس طرح کے ناپختہ اعلانات بعد میں مذاق بن جاتے ہیں، البتہ گورنر ہاؤسز کو پرائیوٹائز کیا جاسکتا ہے، یہ پرائم لوکیشن ہے اور بے انتہا قیمتی ہے۔