پاکستان کایوم آزادی فیس بک بھر پڑی ہے‘ دل اور دماغ خالی ہیں

328

قائد اعظم محمد علی جناح کی زیر قیادت بر صغیر کے مسلمانوں کی بے مثال جدوجہد کے نتیجہ میں پاکستان ایک آزاد‘ خودمختار مسلم ریاست کے طور پر وجود میں آیا‘ آج جہاں جہاں بھی دنیا بھر میں پاکستانی بستے ہیں‘ یہ سب اور کشمیری‘ سری نگر کی گلیوں بازاروں اور کھیتوں کھلیانوں میں پاکستان کا یوم آزادی منارہے ہیں‘ کل کشمیر کی ڈھل جھیل کی لہریں‘ خوبصورت وادی‘ سیبوں کے باغات بھارت کے یو آزادی کو یوم سیاہ کے طور منائیں گے اقوا متحدہ سمیت دنیا بھر کی عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کو بتائیں گے کہ وہ اس پاکستان کے ساتھ ہیں جو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا‘ کہ پاکستان میں انصاف ہوگا‘ علم جہالت کی جگہ لے گا‘ عدالتوں میں قانون کے مطابق انصاف مہیا کیا جائے کسی کو مذہب کی بنیاد پر امتیاز کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا آج جب پاکستان اپنا ۷۱ یوم آزادی منا رہا ہے تو ہمیں اپنے اکہتر سالہ ماضی کو بھی اپنے سامنے رکھنا ہے‘ اور کھلے ذہن کے ساتھ حساب لگانا ہے کہ ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا‘ آج کا دن خوشی‘ مسرت اور آذادی کے اظہار کا دن ہے لیکن یہ یوم احتساب بھی ہے کہ ہم جانیں پاکستان جن مقاصد کے لیے حاصل کیا گیا تھا کیا وہ مقاصد پورے کیے جاسکے ہیں؟ جن دنوں تحریک پاکستان جاری تھی‘ مسلمانوں کی قیادت عظیم سیاسی رہنمائوں کے ہاتھ میں تھی اس وقت ایک وعدہ کیا گیا تھا کہ پاکستان میں کسی کے ساتھ رنگ نسل کی بنیاد پر ذیادتی نہیں ہوگی‘ تمام شہریوں کو ان کے بنیادی انسانی حقوق ملیں گے‘ جمہوریت طرز حکومت ہوگا‘ عوام کی رائے کا احترام کیا جائے گا‘ ملک میں قرآن و سنت کی حکمرانی ہوگی‘ اور سب سے بڑھ کر یہ پاکستان ایک نظریاتی مسلم ریاست ہوگی‘ ملک کی عدلیہ‘ پارلیمنٹ اور تمام ادارے آئین کے تابع ہوں گے اور آئین قرآن و سنت کے تابع ہوگا‘ قرار داد پاکستان اور پھر قرارداد مقاصد دونوں میں ہماری سیاسی قیادت کے لیے مکمل رہنمائی موجود ہے لیکن کیا ہوا؟؟؟ سات دہائیوں میں ایک ایک کا حساب اپنے سامنے رکھیں تو جمہوریت کے منہ سے کئی بار عوامی رائے عامہ اور جمہور کے فیصلوں کا فیڈر چھینا گیا ہے‘ انہیں ایوب خان‘ یحیی خان‘ ضیاء الحق اور پرویز مشرف برانڈ کا دودھ پینے پر مجبور کیا گیا ہے‘ کبھی یہ کام براہ راست ہوا اور کبھی بالاسطہ‘ اس میں ہماری سیاسی جماعتیں بھی خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتیں‘ ہماری سیاست میںبہت سی سیاسی جماعتیں ہیں اور بے شمار سیاسی شخصیات ہیں جن کا جمہوریت میں دل نہیں لگتا‘ ان کے لیے آمریت کا دور ہی آکسیجن کا کام کرتا ہے‘ انہیں رائے عامہ سے کوئی تعلق ہے اور نہ اس پر اعتماد‘ اس کے باوجود یہ جمہوریت‘ رائے عامہ اور عوام کی بات کرتی ہیں پاکستان میں اب تک بارہ عام انتخابات ہوچکے ہیں‘ عوام نے رائے دی ہے‘ ووٹ کے ذریعے اپنے حکمران چنے ہیں‘ جمہوریت پر آج بھی عوام کا یقین اور اعتماد ہے لیکن جمہوری قوتوں اور سیاسی جماعتوں نے عوام کو بہت مایوس کیا ہے‘ ملکی پارلیمنٹ نے قانون سازی تو کی لیکن انتظامیہ قانون کی عمل داری قائم نہیں کر سکی‘ اسی لیے یہ بات کہی جاتی ہے کہ پاکستان میں غریب کے لیے الگ اور امیر کے لیے الگ قانون ہے‘ پاکستان کے آئین نے پارلیمنٹ کی رکنیت کی اہلیت کا معیار آرٹیکل ۶۲ اور ۶۳ کی صورت میں دیا ہے لیکن آج بھی دیکھ لیں اور ۲۵ جولائی کے انتخابات میں کامیاب ہونے والوں کا جائزہ لیں تو کتنے ہیں جو اس آرٹیکل پر پورا اترتے ہوں گے‘ آرٹیکل ۶۲ اور ۶۳ کوئی مذاق نہیں ہے لیکن ہمارے انتظامی اداروں میں اتنی جان ہی نہیں کہ وہ نمائندگی کے اہل لوگوں کا اس میزان پر حساب لے سکے‘ کہیں بڑی سیاسی جماعتوں کا زور چل جاتا ہے اور کہیں پسند اور ناپسند کا سکہ چل جاتا ہے لہذا یہ آرٹیکل بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے اب تک ملک میں بارہ انتخابات ہوئے اور ان کے نتیجے میں پارلیمنٹ وجود میں آئیں اور حکومتیں بھی بنی ہیں لیکن کسی نے نظریہ پاکستان لا الہ اللہ کے عملی نفاذ کی کوشش نہیں کی‘ بر صغیر کے ہندو ساہو کاروں سے اس لیے نجات حاصل کی تھی کہ وہ قرض دے کر مسلمانوں کی اولادیں گروی رکھ لیتے تھے لیکن آج بھی یہی حال ہے ہمارا معاشی نظام سود نے جکڑ رکھا ہے‘ اور ہماری حکومتیں عالمی اداروں اور ملکی مالیاتی اداروں سے سود پر قرض لے رہی ہیں‘ جس کے نتیجہ یہ ہے کہ ہر سال قوم پہلے سے ذیادہ مقروض ہوتی چلی جارہی ہے ہمیں کوئی وزیر خزانہ نہیں ملا جو ملکی معیشت کو سود کے نظام سے پاک کردیتا‘ پاکستان کو بیرونی محاذ پر اور اندرونی محاذ پر بھی بے شمار چیلنجز ہیں‘ ہمیں قومی سلامتی کے خطرات کا سامنا ہے‘ ہماری سرحدیں نظر آنے والے دشمن بھارت اور نظر نہ آنے والے دشمن دھشت گردوں کی سنگینوں کے سائے میں سسک رہی ہیں اور عالمی قوتیں ان دونوں دشمنوں کے ساتھ ہیں‘ پاکستان سے مسلسل مطالبہ کیا جارہا ہے کہا س خطہ میں بھارت کی بالادستی قبول کی جائے لیکن ہماری سرحدوں کے رکھوالے‘ ان کے پاک خون کی قسم کوئی ایک پاکستانی بھی ایسا نہیں جو بھارت کی بالادستی قبول کو تیار ہوگا ہم واقعی ایک زندہ اور خوددار قوم ہیں اس کے باوجود بہت سے سوالات ہیں جن کا جواب ہمیں دینا ہے اگر ہم تحریک پاکستان کی جدوجہد اور ایک نظریاتی ریاست کے قیام کی کوششوں کو مد نظر رکھیں تو ہمیں داخلی طور پر پاکستان کے سیاسی حالات‘ معاشی ترقی‘ جمہوری اداروں‘ آئین کی تشکیل کے سفر پر ایک مکمل بحث کرنا ہوگی اور سرحدوں کے مسائل اور چیلنجز کا حقیقی معنوں میں ادراک کرتے ہوئے ایک غیر جانب دارانہ سچا اور کھرا تجزیہ کرنا ہوگا یوم آذادی ہر سال آتا ہے اور گزر جاتا ہے‘ اس روز جلسے‘ مظاہرے اور ریلیاں بھی ہوتی ہے لیکن قوم میں یکسوئی دکھائی نہیں دیتی‘ ہر سیاسی جماعت کا اپنا سیاسی فلسفہ ہے پوری قوم سیاسی جماعتوں میں بٹی ہوئی دکھائی دیتی ہے قائد اعظم محمد علی جناح جیسی سیاسی شخصیت‘ بصیرت‘ تدبر اور حکمت دانائی کسی سیاسی جماعت میں دکھائی نہیں دے رہی مسلم لیگ‘ جسے پاکستان کی خالق جماعت ہونے کا دعوی ہے بلاشبہ سیاسی لحاظ سے یہ اپنے اس دعوی میں وہ سچی بھی ہے کہ بر صغیر کے مسلمانوں نے الگ وطن کے قیام کے لیے مسلم لیگ کے پرچم تلے ہی جدوجہد کی گئی تھی لیکن یہ اپنے عمل کی وجہ سے خود ہی یہ اعزاز اپنے دامن سے جھٹک چکی ہے‘ ایک مسلم لیگ وہ تھی جس نے ملک بنایا اور ایک مسلم لیگ وہ ہے جس نے ملک میںقانون کی حکمرانی قائم نہیں کی‘ دونوں میں بڑا فرق ہے
1906 میں جب مسلم لیگ قائم ہوئی تو اس کے آنگن میں ایک نظریے نے بھی آنکھ کھولی تھی وہ نظریہ یہ تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں کو انگریز اور ہندوئوں کے سیاسی اور معاشی تسلط سے آزادی دلا کر انہیں نظریہ اسلام کے مطابق آزادانہ ماحول میں سیاسی‘ سماجی‘ معاشی‘ تعلیمی اور معاشرتی میدان میں زندگی گزارنے کا حق دلایا جائے گا اور ایک ایسی ریاست کے قیام کی جدوجہد کی جائے گی جہاں ہر انسان کسی مذہب‘ معاشرت اور سماج کی تفریق کے بغیر قانون اور آئین کے سائے میں زندگی بسر کرے گا مسلم لیگ کی مسلسل سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں علامہ اقبال نے1930 میں ایک روڈ میپ دیا کہ مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک مسلمان ریاست قائم کردی جائے اس کے دس سال کے بعد بر صغیر کے مسلمان منٹو پارک( اب اقبال پارک) میں مسلم لیگ کی قیادت کی اپیل پر جمع ہوئے اور جہاں انہیں قرارداد لاہور کی منزل ملی یہ خطبہ الہ آباد کی اگلی منزل اور اہم سنگ میل تھا قرارداد لاہور میں یہی کہا گیا کہ صوبوں کی ریاستیں اپنی خود مختاری قائم رکھتے ہوئے ایک وفاق کے تحت اکٹھی کردی جائیں اس قرار داد نے مسلمانوں میں جدوجہد کی ایک نئی زندگی اور حرارت پیدا کردی اور چھ سال کے بعد مسلم لیگ کو انتخابات میں بے مثال کامیابی ملی اور اگلے سال 14 اگست کو پاکستان وجود میں آگیا یوں مسلم لیگ کی سیاسی آئینی جدوجہد کے اکتالیس سال کے بعد بر صغیر کے مسلمانوں کو ان کی منزل مل گئی جب پاکستان قائم ہوا تو اس وقت ہمارے ارد گرد کیا حالات تھے؟ ایک جانب افغانستان‘ اور ایران‘ اور بھارت کے ساتھ سرحد کی ایک لمبی اور طویل پٹی‘ اور ایک ہزار میل کے فاصلے پر مشرقی پاکستان‘ جو پوری طرح بھارت اور اس کی زیر اثر چھوٹی ریاستوں میں سینڈ وچ بنا ہوا تھا اگر ہم پاکستان کے قیام کے بعد ایک ایک عشرے میں رونما ہونے والے سیاسی حالات کا تجزیہ کریں تو ہمیں جمہوری اداروں کی کمزوریاں اور ووٹ کی طاقت کرچی کرچی ہوتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں پاکستان کے خلاف ہونے والی عالمی سازشوں کا سب سے خود بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح پہلا نشانہ بنے پاکستان کے محبوب ترین قومی رہنماء بے بسی کے عالم میں عالمی سازشوں کے مقامی اندرونی سازشوں اور حکمت کاروں کے ہاتھوں شکست کھا کر دنیا سے (باق صفحہ 15پر)

میاں منیر
رخصت ہوئے ان کی موت کے اسباب اور ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کی آج تک تحقیقاتی رپورٹ سامنے نہیں آسکی ہمارے تعلیمی نصاب میں اس مختصر ترین کہانی بیان کرکے سارا باب بند کردیا گیا‘ ان کے بعد ان کے مخلص ساتھی وزیر اعظم لیاقت علی خان راولپنڈی میں ایک بھرے جلسے میں قتل کردیے گئے یہ بڑے واقعات پاکستان کے قیام کے پہلے پانچ سالوں کے اندر اندر ہی ہوئے تحریک پاکستان کے دو قیمتی مہرے راہ سے ہٹائے جانے کے بعد ملک کی سیاسی قیادت فوج اور بیوروکریسی کے چنگل میں آجاتی ہے عدلیہ ان کی سہولت کار بن جاتی ہے اور جسٹس منیر نظریہ ضرورت کا ایک ایسا فیصلہ لکھتے ہیں کہ جو پاکستان کی سیاسی‘ معاشی‘ معاشرتی اور سماجی تصویر کے خاکے میں رنگ بھرنے کے لیے اکٹھے ہونے والے علماء کے تیار کردہ متفقہ نکات کو دفن کردینے کا باعث بن جاتا ہے1958 کے مارشل لاء کے بعد جنرل ایوب خان ملک کا نظم و نسق سنبھالتے ہیں اور اس دوران1954 کے دستور کا بوریا بستر بھی گول کردیا جاتا ہے جسٹس منیر کے فیصلے نے جس نظام کی بنیاد رکھی یہ نظام آج بھی اپنی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے اور آج بھی انتظامیہ‘ مقننہ اور عدلیہ میں باہمی کشمکش ہے یوں سمجھ لیں کہ سیاسی تاریخ کے اعتبار سے پاکستان آج بھی جسٹس منیر کے لکھے ہوئے فیصلے کی چنگل میں ہے ایوب خان کے دور حکومت کی پسلی سے 1962کا آئین جنم لیتا ہے جب اس آئین کی کرنوں نے ملک میں جمہوری عمل نشو نماء مدد گار بننا چاہا تو یہی آئین اپنے خالق کے ہاتھوں ملیا میٹ ہوا اور یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ ایوب خان کا دور میں ہمیں تحریک پاکستان کی معتبر ترین شخصیت محترمہ فاطمہ جناح کی ایک فوجی جرنیل کے مقابلے میں سیاسی شکست کا داغ دے کر رخصت ہوا‘ اس زمانے میں نامور اسکالرمولانا مودودی اور دیگر سیاسی رہنمائوں نے فاطمہ جناح کی انتخابی مہم چلائی‘ ایوب خان جب اقتدار سے رخصت ہوئے تو اس وقت پاکستان کو قائم ہوئے اکیس سال ہوچکے تھے لیکن پاکستان کا مطلب کیا لاالہ اللہ کا نعرہ ہمیں حقیقی معنوں میں معاشرتی تشکیل میں کہیں نظر نہیں آیا‘ البتہ سیاسی مقاصد کے لیے حکمرانوں نے اسلام کے نام کو خوب استعمال کیا جنرل ایوب خان کے دور میں آئین‘ جمہوریت اور سیاسی نظام تو مستحکم نہیں ہوا لیکن سندھ طاس معاہدہ ہوا‘ منگلہ اور تربیلا ڈیم بنے اور مسلم لیگ ٹکڑے ٹکڑے ہوئی‘ احتساب کے لیے ایبڈو قانون آیا‘ تو اعلان ہوا کہ جو بھی ایوب خان کے ساتھ کھڑا ہوگا وہ صادق اور امین ٹھہرے گا جس نے مخالفت کی پولیس اسے پکڑ کر لے جاتی‘ پولیس اسٹیشن میں جب جرم لکھا جاتا تو تفتیشی سے کہا جاتا فی الحا ل تھانے میں رکھو جرم حکمران سے پوچھ کرکل بتادیا جائے گا اسی دور میں مسلم لیگ‘ کونسل لیگ اور کنونشن لیگ میں تقسیم ہوئی‘ اسی کشمکش میں ایوب خان نے اقتدار جنرل یحیی خان کے حوالے کیا اور خود رخصت ہوگئے بدتر حالات نے انہیں اقتدار کی مسند سے اتر کر گھر جانے پر مجبور کیا‘ ایوب خان کی رخصتی کے بعد مسلم لیگ کی کوکھ سے پیپلزپارٹی نے جنم لیا اور ملک میں سماجی انصاف کا نعرہ لگایا‘ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ اللہ پیپلزپارٹی نے بھی یاد نہ رکھا یحیی خان آئے تو ان کا اقتدار اہل پاکستان کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا داغ دے کر رخصت ہوا اپنے دور میں وہ بھارت سے جنگ اور اس کے بعد ملک میں عام انتخابات کرا چکے تھے لیکن اقتدار کی منتقلی کے مکروہ کھیل میں بھٹو‘ یحیی خان اور مجیب تینوں برابر کے ذمہ دار تھے اسی کھیل نے ڈھاکا ہمارے ہاتھوں سے گنوادیا پھر ملک آدھا ہوگیا‘ جس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو حکمران بنے اور اسمبلی نے دستور بنایا 1973 کے آئین کا سہرا پیپلزپارٹی اپنے سر باندھتی ہے اور پارلیمنٹ کے کردار کو بھول جاتی ہے اس آئین کے بنانے میں شاہ احمد نورانی‘ مفتی محمود‘ ولی خان‘ چوہدری ظہور الہی اور پروفیسر عبدالغفور جیسی شخصیات نے اپوزیشن بنچوں کی بے مثال نمائندگی کی اور پاکستان کے اس آئین میں یہ بات شامل کی کہ اسلام ریاست کا سرکاری مذہب ہوگا اور ملک میں قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا لیکن میں آئین یہ ضمانت فراہم کیے جانے کے باوجود اس پارلیمنٹ نے اس حوالے سے کوئی قانون سازی کی اور نہ کوئی اقدامات اٹھائے اور یوں بھٹو دور بھی ختم ہوا اس دور میں سیاسی کارکن‘ سیاسی مخالفت کی وجہ سے قتل ہوئے‘ ڈاکٹر نذیر احمد شہید‘ خواجہ محمد رفیق اور عبدالصمد اچکزئی جیسے رہنماء سر بازار قتل ہوئے‘ سیاسی کارکنوں کوجیلوں میں ڈالا گیا‘ دلائی کیمپ سجائے گئے‘ اخبارات پر سنسر شپ نافذ کی گئی‘ مشرق وسطی میں پاکستانیوں کے لیے روزگار کے دروازے ضرور کھلے‘ ڈھاکا کا باب بند ہوگیا اور بنگلہ دیش منظور کیا گیا‘ دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس ہوئی‘ مسلم دنیا متحد ہوکر یک جان نہ بن سکی بھٹو کا یہ بدترین دور پیپلزپارٹی اور پاکستان قومی اتحاد کے مابین انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے باعث پیدا ہونے والی کشمکش کے نتیجے میں ختم ہوا اور جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کردیا ایوب خان کے مارشل لاء کے ٹھیک انیس سال بعد ملک ایک بار پھر فوجی حکمرانی کی جانب چلا گیا جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء نو سال تک نافذ رہا‘ ضیاء الحق حکومت کا بڑا اور بدترین واقعہ بھٹو کی پھانسی تھا بھٹو کی پھانسی آج انتالیس سال کے بعد بھی جائز قرار نہیں پائی اور سپریم کورٹ کے وہ جج‘ جنہوں نے پھانسی کی سزا کی توثیق کی‘ ان میں بہت سے ایسے تھے جو اس بات کا اعتراف کرتے رہے کہ فیصلہ دبائو کی وجہ سے کرنا پڑا‘ ضیاء الحق دور میں سیاسی جماعتیں کاالعدم قرار پائیں‘ اخبارات سنسر شپ کی ذد میں رہے اور ایک بار پھر آئین میں ترمیم ہوئی‘ اور اس کی سفارشات کی روشنی میں ایک لیگل فریم ورک بنا جس کے تحت ملک میں غیر جماعتی انتخابات کرائے گئے اس اسمبلی میںآٹھویں آئینی ترمیم منظور کی گئی لیکن قومی سلامتی کونسل یعنی نیشنل سیکورٹی کونسل جیسی تجویز اسمبلی نے تسلیم نہیں کی اور یہ معاملہ آج تک ملکی سیاست کا ایک اہم نکتہ بنا ہوا ہے ہر سیاسی اور جمہوری حکومت کسی نہ کسی لحاظ سے اس کے بوجھ تلے دبی رہتی ہے ضیاء دور میں اگرچہ ملک میں نظام صلوہ‘ عشر زکوہ جیسے فیصلوں کے ذریعے اسلامی نظام کے نفاذ کی جانب پیش قدمی ہوئی لیکن سود ختم نہیں ہوسکا لہذا یہ دور بھی اس لحاظ سے مثالی قرار نہیں دیا جاسکتا ضیاء دور میں افغانستان میں روس کی پیش قدمی اور امریکا کی اس خطہ میں دلچسپی اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ تمام تر حمایت کے باوجود امریکا نے ضیاء الحق کو فوجی قیادت سمیت طیارے کے حادثے میں ہلاک کردیا‘ ان کے بعد پیپلزپارٹی اقتدار میں آئی‘ یہ حکومت انیس ماہ رہی‘ اور اسٹبلشمنٹ کے ساتھ اس کا نباہ نہیں ہوسکا‘اس کے بعد باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت نواز شریف کو آئی جے آئی کے پلیٹ فارم کے ذریعے مرکز میں لایا گیا 1988سے لے کر1999 تک کے گیارہ سالوں میں ملکی سیاست اس قدر چپقلش کا شکار رہی کہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں ان گیارہ سالوں میں اپنی دو دو باریاں بھی بھگتا چکے اکتوبر1999 میں ملک ایک بار پھر فوجی حکمرانی کے دور میں چلا گیا جنرل پرویز مشرف نے تو اقتدار سنبھال کر پاکستان کا مطلب کیا لا الہ اللہ کی باقاعدہ تدفین کردی اور کہا کہ سیکولر ترک رہنماء اتا ترک ان کے آئیڈیل ہیں جنرل مشرف کا دور2008 تک رہا انہیں ایک سیاسی تحریک اور پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پیدا ہونے والی ملکی صورت حال کے باعث اقتدار سے الگ ہونا پڑا جنرل مشرف کے دور میں ان کی نگرانی میں بنائی جانے والی حکومت نے اگرچہ پانچ سال پورے کیے لیکن ان پانچ سالوں میں تین وزرائے اعظم قربان ہوئے اور اس حکومت نے بھی نظریہ پاکستان کی اصل بنیاد پاکستان کا مطلب کیا لاالہ اللہ کو فراموش کیے رکھا 2008 سے 2013 تک پیپلزپارٹی کی حکومت رہی‘ آصف علی زرداری ملک کے صدر بنے‘ اللہ کی شان دیکھیں کہ اس پاکستان نے کیسے کیسے رہنمائوں کوکیا کیا منصب دیے ہیں‘ لیکن ان رہنمائوں نے ملک کو کیا دیا‘ صرف کھوکلے نعرے‘ اور آج ایک بار پھر ملک میں انتخابات ہوئے‘ تحریک انصاف کو جتوادیا گیا ہے‘ انتخابات ہوئے تین ہفتے ہوچکے ہیں بیلٹ پیپرز آج بھی گندے نالوں سے برآمد ہورہے ہیں پوری قوم اس ماحول میں یوم آزادی منا رہی ہے‘ آج بھی یہی نعرہ لگ رہا ہے کہ پاکستان کام مطلب کیا‘ لا الہ اللہ‘ فیس بک بھر پڑی ہے‘ دل اور دماغ خالی ہیں اور ………… کوئی حکمران بھی اس نعرے کو عملی شکل نہیں دے سکا صرف سیاسی مفاد کے لیے اسے استعمال ضرور کیا