پاکستان کو بھی یاد کرلیں

228

پاکستانی قوم آج اپنا یوم آزادی منارہی ہے ہر طرف رنگا رنگ جھنڈیاں، پرچم، قمقمے، جلسے جلوس، ایک بہار آئی ہوئی ہے۔ 14 اگست کو سارا دن یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ تعلیمی اداروں میں روزانہ کوئی نہ کوئی تقریب ہوتی ہے۔ آج بھی ہوں گی سیاسی رہنماؤں کے پیغامات بھی اخبارات کی زینت بنے ہوتے ہیں سب نے علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر، قائد اعظم اور لیاقت علی خان کا پاکستان بنانے کا عزم کیا ہے۔ سب یہی چاہتے اور کہتے ہیں کہ قائد اعظم کا پاکستان بنائیں گے۔ قائد کا وژن یہ تھا اور علامہ اقبال کی فکر یہ تھی، لیکن عمل کے معاملے میں کیا حکمران، کیا سیاستدان کیا طلبہ کیا دانشور، سب ایک ہیں۔ ٹی وی چینلز اور اخبارات کا حال بھی گیا گزرا ہے، خصوصاً ٹی وی چینلز پر تو ہنگامہ ہے ایک چینل پر تو کئی گھنٹے تک یہ پروگرام چلتا رہا کہ 71 برس میں کیسے قومی نغمے آئے کس نے گائے کون سا اچھا لگا۔ آج ان کی نقل کرکے دکھائیں۔ آخر ہے ناں جذبہ آزادی، نوجوانوں کو شغل میلہ ہاتھ لگا ہوا ہے۔ وہ صرف اس لیے گھروں سے نکلتے ہیں کہ جشن منانا ہے، لیکن کیوں، کیا ہوا تھا، یہ بات دہرانے والے یا ان کو یاد رکھنے والے بھی اب معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ ویسے بھی اب تو نیا پاکستان بن گیا ہے اس کی جدوجہد سب کو یاد رہے گی۔ بھولنے کی کوشش بھی کی تو میڈیا اور نئے پاکستان والے یاد دلادیں گے۔ لیکن ہماری بھی ذمے داری ہے کہ پرانے پاکستان کے بارے میں یاد دلادیں۔ پاکستان محض جھنڈے لہرانے سے تو نہیں بنا تھا، کسی جلسے جلوس، ٹی وی ٹاک شو یا دھرنے کے نتیجے میں وجود میں نہیں آیا تھا، اس کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے جانوں کی قربانی دی تھی۔ لاکھوں لوگوں نے اپنے گھروں کو چھوڑا تھا اور گھر چھوڑنے کا مطلب یہ نہیں کہ ایک گھر چھوڑ کر دوسرے گھر چلے گئے۔ بلکہ گھروں کا سارا سامان چھوڑ کر پاکستان کے لیے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ گھر کے آدھے لوگ بھارت میں رہ گئے اور آدھے پاکستان پہنچ گئے، اور آج تک یہ خاندان یکجا نہیں ہوئے بلکہ مر کھپ گئے۔ صرف یہی نہیں ہوا تھا۔ جب پاکستان ہجرت کرنے والے آرہے تھے تو ان کے قافلوں پر ہندوؤں اور سکھوں نے حملے کیے ان کے مردوں کو قتل کیا عورتوں کو یرغمال بنایا، ٹرینوں پر بم مارے گئے، یوں پوری ٹرینیں لاشوں سے بھری ہوئی پاکستان پہنچیں۔ غرض یہ آگ کا دریا تھا جسے عبور کرکے لاکھوں لوگ پاکستان آئے۔ جو نہیں آسکے وہ آج تک پاکستان بننے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ کسی علاقے کو اس لیے سزا دی جاتی ہے کہ اس نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ تو کسی کو اس لیے نشانہ بنایا جاتا ہے کہ یہاں سے بہت زیادہ ہجرتیں ہوئی تھیں۔ دنیا میں سبز پاسپورٹ کی کیا قدر ہے وہ بیرون ملک سفر کرنے اور خلیجی ممالک میں ملازمتیں کرنے والے اچھی طرح جانتے ہیں۔ یہ ملک یوں ہی نہیں مل گیا تھا۔ ہزاروں لاکھوں گردنیں کٹی تھیں گھر اجڑے، سہاگ اجڑے، خواتین کی عزتیں لٹی تھیں۔ آج ہم آزادی کا جشن منارہے ہیں ہر گلی میں پرچم لہرائے جارہے ہیں ہر گاڑی پر جھنڈا ہے گھروں پر الگ ہیں، ریڈیو کا ہر چینل گانے ہی گانے۔ اور آواز بھی تیز ۔ یہ سب کیا ہے، کیا اس کا نام آزادی ہے۔ اگر چہ یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ اب نئی نسل پاکستان کے مقصد، نظریے اور جدوجہد سے واقف نہیں ہے لیکن اس خدشے میں زیادہ مبالغہ بھی نہیں ہے۔ آج کے اسکول کالج حتیٰ کہ یونیورسٹی کے طالبعلم سے تحریک پاکستان کے رہنماؤں کے نام پوچھیں تو شاید قائد اعظم فاطمہ جناح اور لیاقت علی خان سے آگے نہیں جاتا ہوگا۔ وجہ اس کی نالائقی نہیں ہے ہمارے حکمرانوں کی خرابی ہے۔ انہوں نے اسکول کالج کے نصاب سے تحریک پاکستان کو نکالا۔ پھر میڈیا سے ایسے سارے پروگرام غائب کیے۔ ایک زمانے میں اگست کے مہینے میں اسکولوں میں کوئز پروگرام ہوتے تھے جامعات اور کالجز کے مابین تحریک پاکستان سے متعلق مقابلے ہوتے تھے۔ تحریک پاکستان منزل یہ منزل کے عنوان سے پی ٹی وی پر پروگرام دکھائے جاتے تھے۔ جب ہر طرف تحریک پاکستان کا چرچا ہو تو ذہنوں میں اس کا کچھ نہ کچھ حصہ رہ جاتا ہے۔ اور گھر سے نکلو یا گھر میں رہو، ملی نغمے ہی دماغ میں گونج رہے ہوتے ہیں۔ اور یہ ملی نغمے بھی بغیر لہکے اور ناچے ممکن نہیں ان ناچنے والوں کو،موسیقی کے ان دلدادوں کو کوئی بتائے کہ 18 لاکھ کے لگ بھگ لوگ مجموعی طور پر اس ملک کے لیے مر مٹے۔ ہزار ہا لڑکیاں تو اغوا ہوئیں، ہزاروں نے کنووں میں چھلانگ ماری، قوم کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ قیام پاکستان کا اصل مقصد کیا تھا۔ قائد اعظم کے بارے میں بھی ایسی بحثیں چھیڑ دی گئیں کہ شرم آنے لگے۔ ان کے مسلمان ہونے پر طنز تو ان کے پاکستان کو سیکولر بنانے کا عزم تو کبھی ان کی جائے پیدائش کا جھگڑا۔ کیا پاکستان واقعی سیکولرزم کے لیے بنا تھا۔ یہ تو قائداعظم پر الزام ہے۔ ایک سیکولر ہندوستان کی موجودگی میں ایک اور سیکولر ملک کیوں بنانا چاہتے تھے۔ ان کی تقریروں کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ بات قوم کو کیوں نہیں بتائی جاتی کہ قائد اعظم نے مسلم لیگ کی پوری کابینہ سے 23 مارچ 1940ء سے ایک رات قبل میری نماز میری قربانی، میرا جینا اور مرنا صرف اللہ رب العالمین کے لیے ہے کی آیت پڑھوا کر حلف کیوں لیا تھا۔ سب چھوڑیں ان کی نماز جنازہ پڑھانے والے عالم دین علامہ شبیر عثمانی ؒ کی سند ہی تسلیم کرلیں اور اب تو یہ بحث بھی چھیڑی جاتی کہ قائد اعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے۔ قوم کو یہ تو پتا نہیں کہ اب ہم کیسا پاکستان چاہتے ہیں۔ نئی اسمبلی اور نئی حکومت میں آنے والے پرانے ارکان پارلیمنٹ بھی حلف اٹھا چکے، اب وہ بھی یہی کہتے نظر آئیں گے کہ ہم قائد اعظم کے وژن والا پاکستان بنائیں گے۔ یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ مختلف پارٹیوں میں بار بار رہنے اور حکومتوں کا حصہ رہنے کے باوجود وہ قائد کے وژن والا پاکستان کیوں نہ بناسکے۔ خدا را نئے پاکستان، ترانوں، نغموں، نعروں اور جلوسوں کے شور میں تحریک پاکستان کے شہداء، نظریہ پاکستان اور اس پاکستان کے مقاصد کو نہ بھلا دینا۔ پرانے پاکستان کو ضرور یاد رکھنا۔ جن ارکان اسمبلی و پارلیمنٹ نے 13 اگست کو حلف اٹھا لیا ہے اور پنجاب اسمبلی کے جو ارکان حلف اٹھانے والے ہیں اپنے حلف کے الفاظ پر غور کریں اسلام اور نظریہ پاکستان کی وفاداری کا حلف اٹھایا ہے اس کی پاسداری کریں۔ قوم کو اپنے ارکان اسمبلی سے یہی توقع رہتی ہے کہ وہ جو کہیں اس پر عمل کریں۔ ہمارا المیہ یہی رہا ہے کہ سیاستدان تو الگ فوجی حکمران بھی اپنے وعدے اور قول کے پابند نہیں رہے۔ جنرل ضیاء الحق نظام مصطفی کے نفاذ کے لیے تین ماہ کا وقت لے کرسند اقتدار پر بیٹھے اور 11 برس بعد براہ راست قبر میں اتارے گئے۔ جنرل ایوب سیاستدانوں پر نا اہلی کا الزام لگاتے تھے اور وہ ایسی سیاسی نسل اس ملک کو دے گئے جو اب تک پوری نظام سے چمٹی ہوئی ہے۔ جنرل پرویز کا تو کیا ذکر کریں، وہ تو اب تک یو ٹرن لے رہے ہیں۔ عمران خان اب امتحان گاہ میں ہیں انہیں مدینے جیسی ریاست بنانی ہے تو اسلام اور نظریہ پاکستان کے حلف کی پاسداری کرنی ہوگی۔ جو نہ کرے اس سے فاصلہ رکھیں۔ ورنہ ایک وقت آئے گا کہ قوم ان سے فاصلہ کرے گی۔ اگر عمران خان اپنے وعدے کی پاسداری کر گئے اور اس ملک کو مدینے جیسی فلاحی ریاست بنانے کے راستے پر ہی ڈال دیا تو یہ ان کی بڑی کامیابی ہوگی۔ اس کام میں نہیں اسمبلی میں بھی تعاون ملے گا۔