پاک امریکا زوال پزیر فوجی تعلقات

319

 

یہ خبر قطعی کسی حیرت کا باعث نہیں بنی ہوگی کہ امریکا نے پاکستان کو اپنے انٹرنیشنل ملٹری ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ پروگرام دائرے سے خارج کر دیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت اس سال چھیاسٹھ پاکستانی فوجی افسروں کو تربیت کے لیے امریکا جانا تھا اس فیصلے کے بعد کوئی بھی پاکستانی امریکا نہیں جائے گا۔ اب پاکستان کی جگہ کسی دوسرے ملک کے فوجی افسر اس تربیت سے استفادہ کریں گے۔ اس منسوخ شدہ پروگرام کی مجموعی مالیت چوبیس لاکھ ڈالر ہے۔ اس پروگرام کے تحت مجموعی طور پر پاکستان کے تین ہزار سات سو چھیاسٹھ فوجی افسروں نے تربیت حاصل کرنا تھی۔ پاکستانی سینیٹ کی خارجہ کمیٹی نے اس فیصلے کو ظالمانہ قرار دیا ہے جب کہ سابق امریکی نمائندے ڈین فیلڈ مین نے اسے تنگ نظری قرار دیا ہے۔ دونوں طرف کے فوجی حکام نے تاحال اس فیصلے پر تبصرہ نہیں کیا۔ امریکا کی طرف سے پاکستان فوج کو تربیت کی حاصل سہولت اچانک ختم نہیں ہوئی اس کے پیچھے دہائیوں کی کشمکش، کشیدگی، رنجش، دوری اور ڈومور اور نو مور کی تکرار ہے۔ پاکستان سے امریکا کا جی اسی وقت بھر گیا تھا جب سوویت یونین افغانستان میں اپنے فوجی مقاصد میں ناکام ہوکر واپس لوٹ گیا تھا اور یہ دیوہیکل ریاست کئی ٹکڑوں میں بٹ گئی تھی۔ اس سے امریکا کے لیے پاکستان کی فوری اور اہم ترین ضرورت ختم ہو گئی تھی۔امریکا نے افغان جنگ کے اثرات بھگتنے کے لیے پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا تھا۔ سرد جنگ کے بعد امریکا کی خطے میں نئی ضرورتیں اور نئے مقاصد تھے۔ اب سوویت یونین کا سرخ لاوے کے پھٹ پڑنے کا خطرہ ٹل گیا تھا اور اس کی جگہ امریکا کو ایک خاموش خطرے کی بومحسوس ہو رہی تھی۔ یہ خطرہ چین سے تھا اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا کو جنوبی ایشیا میں ایک ایسے طاقتور اتحادی کی ضرورت تھی۔ پاکستان چین کا روایتی دوست تھا اس لیے شاید وہ یہ ضرورت پوری کرنے سے قاصر تھا اس لیے امریکا کی نظرِ انتخاب بھارت پر جا ٹھیری۔ امریکا نے جنوبی ایشیا میں اپنے انڈے اور ڈنڈے بھارت کی ٹوکری میں ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کو بھارت کے ساتھ نتھی کرنے کی حکمت عملی اختیار کی۔ یہ حکمت عملی بیک فائر کر گئی اور یہی پاک امریکا تعلقات کو لاحق بیماری کی بنیاد بنی۔ بھارت کے ساتھ پاکستان کے سنجیدہ اور گہرے اختلافات تھے جن کی جڑیں تاریخ میں بہت دور تک پیوست تھیں۔ ان اختلافات کو باوقار انداز میں ختم کیے بغیر دونوں ملکوں کا قریب آنا ممکن تھا۔ نائن الیون نے ایک نئی صورت حال کو جنم دیا۔ امریکا نے پاکستان کے لیے ’’ہمارے ساتھ ہیں یا نہیں‘‘ کی لکیر کھینچ دی اور یوں ایک کھینچا تانی کا آغاز ہوگیا۔ افغانستان میں بھارت کا اثر رسوخ پاک امریکا تعلقات کو گھن کی طرح اندر ہی اندر چاٹتا چلا گیا۔ یہاں تک دونوں ملکوں کے فوجی اور سیاسی تعلقات میں تضاد پیدا ہوگیا۔ دہشت گردی اور دہشت گرد، ہیرو اور ولن کی تصورات بدل گئے۔ اس سے یہ تصور بھی بدل گیا کہ امریکا پاکستان میں فوج کا اتحادی ہے اور جرنیل امریکا کے اشارے پر مارشل لا لگاتے رہے ہیں۔ امریکا نے فوج سے اپنا ناتا توڑ کر سویلین حکمرانوں اور بڑی سیاسی جماعتوں کو شیشے میں اُتارنے کی حکمت عملی اختیار کی اور یوں پاکستان میں سویلین ملٹری کشمکش تیز ہوگئی۔ امریکا نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر ناگواریت کا مسلسل اظہار جاری رکھا اور دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان سلالہ کا ایسا واقعہ ہوا جس نے اشتراک اور اتحادی کا رہا سہا بھرم ختم کر دیا۔ یہ پاک افغان سرحد پر امریکی فوج کا فضائی حملہ تھا جس میں دو درجن سے زیادہ فوجی جاں بحق ہوئے تھے۔ اب فوجی افسروں کی تربیت کا خاتمہ دونوں ملکوں کے تعلقات کا دائرہ سکڑنے کی انتہا ہے۔ امریکا اب کر�ۂ ارض کی واحد طاقت نہیں رہا۔ یونی پولر نظام کا عارضی سورج اب ڈھلنے کی طرف رواں ہے اس کے باجود امریکا کی اہمیت مسلمہ ہے۔ ہمارے لیے یہ کسی طور بھی اچھا نہیں کہ ایک عالمی طاقت ہم سے اور ہم اس سے قطع تعلق کرتے جا رہے ہیں۔ ماضی میں بھی ہم سوویت یونین سے کلی طور پر کٹ کر امریکا کے پلڑے میں جھولتے رہے اور اس سے پاکستان کی خارجہ پالیسی عدم توازن کا شکار رہی۔ سیٹو اور سینٹو جیسے معاہدات میں ہماری شمولیت سے سوویت یونین درپے آزار رہا اور حسبِ ضرورت امریکا بھی مدد کو نہ آیا۔ امریکا کا ساتواں بحری بیڑہ اس کی توتا چشمی کا محاورہ بن کر رہ گیا۔ کئی دہائیاں گزرچکی ہیں اور آج بھی مشکل وقت میں وعدہ فردا پر ٹرخانے کی بات ہو تو امریکا کے ساتویں بحری بیڑے کی مثال دی جاتی ہے۔ ایک بڑی عالمی طاقت کے ساتھ پاکستان کے فوجی تعلقات میں روکھا پن ایک المیہ ہے مگر امریکا نے یہ ناگزیر بنا دیا ہے۔ بات عسکری تربیت کی نہیں۔ افغانستان میں امریکی فوج کا حال دیکھیں تو ان سے تربیت لینے کی کوئی صورت ہی باقی نہیں رہتی مگر کچھ چیزیں علامتی ہوتی ہیں۔ جو جرنیل امریکا سے تربیت حاصل کرکے آتے تھے وہ بلاشبہ ذہنی طور پر امریکا سے متاثر اور مغلوب ہو تے تھے۔ یہی لوگ پاکستان اور امریکا کی فوجی پارٹنر شپ کو اچھے طریقے سے چلاتے تھے۔ اب شاید امریکی بھارت کی قیمت پر پاکستان کے ساتھ تعلقات قائم رکھنے کے قائل ہی نہیں رہے بالخصوص امریکا میں جس پاکستان مخالف لابی کے مشورے سے پاکستان پالیسی بن رہی ہے اس کی سوچ وفکر یہی ہے کہ پاکستان کی کلائی مروڑ دی جائے اور اگر اس سے کام نہیں چلتا تو پاکستان سے قطع تعلق کر دیا جائے۔ پاکستان کے پاس چین اور روس جیسے علاقائی اتحادیوں کی شکل میں متبادل موجود ہے اور امریکا بھی اس حقیقت سے غافل نہیں۔