موسم اتنا سفاک تو نہیں تھا کہ آنے میں مانع ہوتا مگر گا ہے اندر کے موسم زنجیر بن جاتے ہیں، باہر کے موسم پر حاوی آجاتے ہیں۔ اس روز لاہور میں مطلع صاف تھا اسلام آباد میں بادل تیر رہے تھے۔ ذرا سی بھی رعایت نہ دینے والے اینکر نے پروازوں کی تعداد تک بتادی کہ اس روز کتنی پروازیں لاہور سے اسلام آباد پہنچیں۔ ایک شہباز شریف کی ہی پرواز کو موسم نے راستہ دینے سے انکار کردیا۔ ایک ایسے وقت میں جب فری اینڈ فیئر الیکشن کے لیے تشکیل دیے گئے اتحاد کا یہ پہلا مظاہرہ تھا۔ پارٹی قائدین کی عدم شرکت نے اسے ایک بے کیف منظر بنادیا۔ احتجاجی مظاہرے کا فیصلہ آل پارٹیز کانفرنس میں کیا گیا تھا جس کے اب تک منعقد ہونے والے تمام اجلاس بند کمرے میں ہوئے تھے۔ عوامی سطح پر یہ اولین احتجاج تھا۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے آصف علی زرداری یا بلاول بھٹو نے اپوزیشن کے کسی احتجاج میں اب تک شرکت سے گریز کیا ہے۔ اس روز بھی وہ اپنی روش پر قائم رہے۔ اے این پی کے قائدین اور ورکروں نے بڑے جوش وخروش سے مظاہرے میں شرکت کی تھی لیکن اسفند یار ولی نے رونق افروز ہونے سے اجتناب کیا تھا۔ جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق منصورہ کی سرگرمیوں میں سرگرم رہے۔سر پہ احسان رہا بے سروسامانی کا خار صحرا سے نہ الجھا کبھی دامن اپنا لیکن یہ شہباز شریف تھے جن کی عدم شرکت موضوع گفتگو رہی۔ اس شعر کے اصل مخاطب بھی وہی ہیں۔ طاقت کے اس پہلے مظاہرے میں شرکت کے لیے انہیں صبح ہی اسلام آباد آجانا چاہیے تھا۔ چلیے مانا کوئی پرواز دستیاب نہ تھی سڑک کے راستے بھی آیا جاسکتا تھا۔ چار پونے چار گھنٹے میں اسلام آباد پہنچ سکتے تھے۔ اتنی دیر احتجاج کو طول دیا جاسکتا تھا۔ رنگ اور چوکھا ہوجاتا۔ وہ آتے تو حبیب جالب کو بھی ساتھ ہی لے کر آتے۔ اپنی بیٹھی ہوئی آواز اور اٹھے ہوئے ہاتھوں سے ’’میں نہیں مانتا‘ میں نہیں مانتا‘‘ کی تکرار کرتے توکچھ تو سماں بندھتا۔ لیکن اغلب یہی ہے کہ وہ سماں باندھنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ نواز شریف کی احتجاج کی سیاست کو انہوں نے ابھی تک دل سے قبول ہی نہیں کیا ہے۔ طاقت کے مراکز سے محاذ آرائی کی جس راہ پر نواز شریف اور ان کی صاحبزادی چل پڑی ہیں وہ اس سے گریز ہی میں عافیت سمجھتے ہیں۔ چودھری نثار بھی اسی نظریے کے تائید کنندہ ہیں۔ ان کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ اگر طاقت کے مراکز سے مفاہمت کی پالیسی پر عمل کیا جاتا تو نواز شریف اور مریم نواز کو یہ دن دیکھنا ہی نہ پڑتا۔ چودھری نثار کے اس بیانیے کو درست تسلیم کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کرپشن کے جن جرائم کی سزامیں نواز شریف اڈیالہ جیل میں ہیں ان کی حقیقت کچھ بھی نہیں۔ نواز شریف طاقت کے مراکز کے جذبہ انتقام کی زد میں ہیں۔ اس منظر نامے میں معزز عدالتیں اور جج صاحبان طاقت کے مراکز کے محض مہرے نظر آتے ہیں۔ بات کسی اور طرف نکل گئی۔ ہم کہنا یہ چاہ رہے تھے کہ الیکشن کے بعد عمران خان جس مہارت سے میدان میں اپنے کھلاڑیوں کو اتار رہے ہیں، جس چابک دستی سے فیلڈ پلیسنگ کررہے ہیں، اپوزیشن ان کو نہیں وہ اپوزیشن کو ٹف ٹائم دیتے نظر آرہے ہیں۔ کا میابی کے بعد ان کا عالم ہی اور ہے۔ وہ پہلے والے عمران خان لگتے ہی نہیں ہیں۔ ان کی کمزوری ان کی اضطرابی کیفیت تھی جس میں نہ جانے وہ کیا کیا کچھ کہتے چلے جاتے تھے۔ اب وہ اس کیفیت سے باہر آگئے ہیں۔ بہت ابتدا میں جس نظریاتی عمران خان کا انہوں نے امیج تخلیق کیا تھا اب وہ اس سے دستبردار ہوچکے ہیں۔ اب وہ ایک ایسے عملی سیاست دان ہیں جو اپنے اقتدار کے لیے کسی بھی قول کسی بھی فعل سے دستبردار ہونے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتا جس کا عملی مظاہرہ سعد رفیق کے مقابل سپریم کورٹ میں ووٹوں کی گنتی رکوا کر وہ کرچکے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو اس حلقے سے شکست کی بہت بھاری قیمت انھیں تادم اقتدار چکانا پڑتی۔ اسمبلی اور اسمبلی کے باہر عمران کا راستہ صرف وہ سیاست دان روک سکتا ہے جو نواز شریف کے بیانیے پر مکمل یقین ہی نہ رکھتا ہو صمیم قلب سے اس پر عمل کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہو۔ شہباز شریف یہ راستہ اختیار کرنے پر تیار نہیں۔ نواز شریف کرپشن کے مجرم ہیں یا نہیں، ماضی میں ان کی کارکردگی تسلی بخش تھی یا نہیں لیکن یہ نواز شریف کا بیانیہ ہے جس نے 25جولائی سے پہلے اور بعد میں مسلم لیگ کے ورکر اور ووٹر کو جوش اور جذبہ دیا ہے۔ جیل میں ان سے ملاقات کرنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ شہباز شریف نواز شریف کے نظریے سے اپنی وابستگی ثابت کرنے میں نہ مخلص ہیں اور نہ ہی وہ اس کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔
گزشتہ سال بھر سے جب سے نواز شریف نااہل ہوئے ہیں شہباز شریف نواز شریف کے ہم رکاب نظر نہیں آتے حالاں کہ ان کا وجود نواز شریف کا مرہون منت ہے۔ جب تک محترمہ بے نظیر زندہ رہیں زرداری صاحب کا وجود ریل کے آخری ڈبے سے زیادہ نہیں رہا اسی طرح جب تک نواز شریف موجود ہیں شہباز شریف کی کوئی سیاسی عصبیت نہیں ہے۔ لیکن احتجاج کی سیاست میں وہ نواز شریف کا ساتھ دیتے نظر نہیں آتے۔ نواز شریف کی لندن سے واپسی پر ائرپورٹ پہنچنے کا معاملہ ہو یا اب اپوزیشن کی تحریک کا ان کا معاملہ ’’ہر چند کہیں کہ ہے پر نہیں ہے‘‘ والا ہے۔ انتخابی مہم میں بھی وہ نواز شریف کے بیانیے کے معاملے میں زیادہ پر جوش نظر نہیں آئے۔ کہیں بھی وہ خلائی مخلوق سے محاذ آرا نظر آئے اور نہ فرشتوں کے مقابل آنے پر تیار ہوئے۔ ایسے میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے بھی مستقبل میں وہ نواز شریف کی ترجمانی کاکردار ادا کرنے سے ہم آہنگ نظر نہیں آتے۔
اس مشکل وقت میں مسلم لیگ ن کے لیے ضروری ہے کہ وہ پارٹی میں ان لوگوں کو سامنے لائے جنہوں نے پارٹی کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ اسمبلیوں میں جلسہ گاہوں میں پارٹی کا ساتھ دینے کا حق ادا کیا ہے۔ اس ضرورت کے باوجود تماشا دیکھیے کہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے نامزد کیا گیا تو شہباز شریف کو۔ انہوں نے پارٹی کے لیے کیا خدمات انجام دی ہیں سوائے اس کے کہ وہ شہباز شریف کے فرزند ارجمند ہیں۔ کیا مسلم لیگ ن نے گزشتہ تیس سال کی سیاست میں ایسا کوئی لیڈر پیدا نہیں کیا جسے اس علامتی مقابلے میں پارٹی کی ترجمانی کا شرف عطا کیا جاسکتا۔ ادھر متحدہ مجلس عمل میں بھی ایسا کوئی بطل رشید نہیں جو ڈپٹی اسپیکر کے عہدے کے لیے علامتی امیدوار بن سکتا۔ اس پوسٹ کے لیے بھی مولانا فضل الرحمن کے فرزند نامدار مولانا اسعد محمود کا انتخاب کیا گیا ہے۔
کسی طرح تو جمے بزم مے کدے والو نہیں جو بادہ وساغر تو ہاؤ ہو ہی سہیاس موقع پر جب کہ اپوزیشن کو قوم کا نبض شناس ہونا چاہیے مولانا فضل الرحمن کا یہ بیان کہ ہم 14اگست کو جشن آزادی نہیں یوم جدوجہد منائیں گے، ایک غیر ضروری اور قوموں کی امنگوں کے منافی بیان ہے جس نے ماضی کے غیر ضروری مباحث کو چھیڑ دیا۔ 14اگست کا تعلق نہ کسی کی ہار سے ہے اور نہ جیت سے۔ یہ قومی دن ہے۔ جسے قوم تمام سیا سی اور جماعتی عصبیتوں سے بالا تر ہوکر بڑے جوش وجذ بے کے ساتھ مناتی ہے۔ جدوجہد کرنے کو پورا سال کیا کئی سال پڑے ہیں۔