امتحان شروع ہوگیا

240

بات لگ بھگ واضح ہوچکی ہے کہ اگلی حکومت پاکستان تحریک انصاف ہی بنائے گی، اگرچہ یہ حکومت اتنی مضبوط نہیں ہوگی جتنی ماضی کی حکومتیں رہی ہیں لیکن یہ اتنی کمزور بھی نہیں ہوگی کہ اپوزیشن کے جھٹکوں کو سہہ نہ سکے موجودہ حکومت کے پاس اپنے آپ کو منوانے کے لیے ابتدائی 4 ماہ یعنی 120 دن ہی ایسے ہوں گے جن سے یہ ظاہر ہوجائے گا کہ پی ٹی آئی حکومت کتنے پانی میں ہے، اس میں کتنی صلاحیتیں ہیں اور یہ اگلے برسوں میں پاکستان کے لیے کیا کر سکتی ہے؟۔
پاکستانیوں نے بڑی امید کے ساتھ عمران خان کو منتخب کیا ہے اور اگر یہ امید ٹوٹتی ہے تو اس کے بعد بہت ہی گہری مایوسی اور اگلے کئی سال کا انتظار ہے، آنے والی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج معیشت ہوگا، ہمارے ہمسائے میں چین ایک بڑی معیشت والی منڈی ہے‘ امریکا کی نظر میں بھارت اس خطے کی بڑی منڈی ہے لہٰذا پہلا ٹکراؤ یہیں سے شروع ہوگا۔ چین کی معیشت مضبوط ہے‘ بھارت اور چین کی آبادی دیکھی جائے تو ہمارے ہمسائے میں تقریباً 3 ارب نفوس پر مشتمل منڈیاں موجود ہیں بھارت دنیا کی بڑی اور چھٹی بڑی معیشت بننا چاہتا ہے یورپ میں فرانس کا جی ڈی پی 2.5 کھرب ڈالر ہے دنیا کی سب سے بڑی معیشت اس وقت امریکا کی ہے، اور امریکا اس خطے میں بھارت کو دوست سمجھتا ہے امریکا کی معیشت کا کل حجم 20.41 کھرب ڈالر ہے، اس کے بعد چین ہے جس کی معیشت کا حجم 14.09 کھرب ڈالر ہے دونوں کے درمیان طویل فاصلہ ہے جسے عبور کرنا اتنا بھی آسان نہیں ہے اکثر سوال ہوتا ہے کہ چین اتنی بڑی طاقت بن چکا ہے، یہ امریکا کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑا کیوں نہیں ہوتا ہے؟، اس کا جواب معیشت کا یہ سمندر ہے جس کو عبور کرنے کی چین کوشش کررہا ہے اور ظاہر ہے ایسی پوزیشن میں امریکا کے سامنے ایک حد سے زیادہ تو کھڑا نہیں ہوا جاسکتا ہے۔ جاپان 5.16 کھرب ڈالر کے ساتھ تیسرے، جرمنی 4.211 کھرب ڈالر کے ساتھ چوتھے اور برطانیہ 2.94 کھرب ڈالر کے ساتھ پانچویں نمبر پر ہے۔ ہمیں جائزہ لینا ہے کہ دنیا کی بڑی منڈیاں کس ملک کا رخ کر رہی ہیں اور ہمیں اپنی معیشت کیسے درست کرنی ہے‘ درآمدات اور برآمدات میں توازن کیسے لانا ہے‘ تجارتی خسارہ کیسے کم کرنا ہے‘ بھارت اور چین کے ہمسائے ہم ہیں اور ہم کہاں کھڑے ہیں؟ اللہ نے ہمیں دریا، گہرے سمندر، صحرا، میدان، پہاڑ اور بہترین موسم عطا کیے ہیں، لیکن ہم انتہائی ناسمجھ واقع ہوئے ہیں، سیاسی قیادت کا درست انتخاب کرنے کی صلاحیت ہمارے اندر نہیں ہے پہلے چور ڈاکو حکمران چنتے ہیں، وہ ہم پر نا اہل افسران بٹھاتے ہیں جن کی وجہ سے بدانتظامی ہوتی ہے اور نتیجتاً اللہ کی نعمتیں ضائع ہوتی رہتی ہیں، یہاں تک کے اُن کی قلت ہو جاتی ہے۔ دوسری جانب ہمارے حکمران ہمیں ہی لوٹ کر دنیا بھر میں جائداد کھڑی کرتے رہتے ہیں لیکن قدرت ہمیں موقع دیتی رہتی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ 71 سال اس ملک کو سب نے لوٹا ہے پھر بھی چند سر پھرے پاکستانیوں کی محنت کی بدولت اب بھی ہماری معیشت 41 ویں نمبر پر ہے، ہماری کل معیشت کا سائز اس وقت 235 ارب ڈالر ہے، ہم دنیا کی 41ویں معیشت ہیں تحریک انصاف کی حکومت کا حقیقی چیلنج معیشت ہوگا، اس کے بعد تعلیم، صحت اور نظام قانون کا نمبر ہے۔ پاکستان کی معاشی ترقی کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اس ملک میں صحیح اور دیرپا امن آسکے، یہ بھی ممکن نہیں کہ کمزور معیشت کے ہوتے ہوئے مضبوط جمہوریت قائم ہوجائے، ہمارے پالیسی سازوں کو اس لائن پر گہرائی سے سوچنے کی ضرورت ہے تاکہ فوکس پیدا کرکے کام کیا جاسکے تحریک انصاف کا نعرہ تبدیلی ہے‘ تبدیلی کسی ایک انسان، کسی ایک سیاسی رہنما یا کسی ایک سیاسی جماعت کے بدلنے سے نہیں آسکتی۔ تبدیلی تب ہی ممکن ہے جب ایک قوم یا معاشرہ خود کو بدلنے کا فیصلہ کرے۔
تحریک انصاف نے دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور پارٹی چیئرمین عمران خان کو وزیراعظم نامزد کیا جس کے بعد سے سیاسی مخالفین نے عمران خان پر طنزیہ جملوں سے بھرپور لفظی حملے شروع کردیے ہیں۔ تیس تیس سال تک حکومتوں میں رہنے والے سیاسی رہنما اپنے دور حکومت کی کارکردگی بتانے کے بجائے عمران خان سے جوابات طلب کر رہے ہیں تحریک انصاف نے پارٹی چیئرمین عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے لیے نامزد کر رکھا ہے جنہیں ایم کیو ایم پاکستان، ق لیگ، عوامی مسلم لیگ، بلوچستان عوامی پارٹی، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) اور آزاد امیدواروں کی حمایت حاصل ہے کیا ان لوگوں کے ساتھ مل کر تبدیلی لائی جائے گی؟؟ عمران خان کا اصل امتحان تب شروع ہوگا جب وہ بطور وزیراعظم اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے ان پر تنقید کے بجائے نئی حکومت اور نئے وزیراعظم کو کم از کم سو دن ضرور دیں گے۔ سو دن بعد ہی حکومت کی کارکردگی دیکھ کر تنقید یا تعریف کی جاسکتی ہے۔ عمران خان نے سو دن کا پلان دیا ہے انہوں نے خود ہی کہا ہے کہ سو دن پارٹی کی عکاسی کریں گے کہ پارٹی کس راستے پر گامزن ہے۔ عمران خان کے سو دن کے پلان میں صحت، تعلیم، زرعی ایمرجنسی، معاشی بحالی، بیوروکریسی اور پولیس میں سیاسی مداخلت کا خاتمہ، پانچ سال میں ایک کروڑ نوکریاں، پچاس لاکھ گھر، جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے اور نیب کو خودمختار بنانے کی منصوبہ بندی شامل ہے جب کہ عمران خان نے جوڈیشل ریفارمز کا بھی وعدہ کیا ہے اپوزیشن جماعتوں کو چاہیے کہ سینیٹ میں عمران خان کے لیے رکاوٹ پیدا نہ کریں تاکہ وہ سو دن کے ایجنڈے کے اصلاحاتی پروگرام پر عمل کرسکیں بصورت دیگر تحریک انصاف سو دن کے پلان کی ناکامی کا ملبہ اپوزیشن جماعتوں پر ڈال دے گی۔