کوئٹہ: کوئلے کی کان میں دھماکے سے ہلاکتیں 12 ہوگئیں

115

کوئٹہ (آن لائن) کوئٹہ کے نواحی علاقے سنجدی میں کوئلے کی کان میں ہونے والے دھماکے میں جاں بحق ہونے والے کانکنوں کی تعداد 12 ہوگئی جبکہ 16 کانکنوں کو بے ہوشی کی حالت میں نکال کر طبی امداد کے لیے کوئٹہ کے مختلف اسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ 5 افراد کو نکالا جانا ابھی باقی ہے جاں بحق کانکنوں کا تعلق خیبر پختونخوا کے علاقوں شانگلہ، سوات اور دیر سے بتایا جاتا ہے۔ تفصیلات کے مطابق بلوچستان کے ضلع کوئٹہ کے نواحی علاقے سنجدی میں کوئلے کی کان میں ہونے والے دھماکے میں ہلاک 12 کان کنوں کی لاشیں اور 16 کو بے ہوشی کی حالت میں نکال لیا گیا۔ بلوچستان کے چیف انسپکٹر کول مائنز افتخار احمد نے بتایا کہ اتوار کو 13 کان کن سنجدی کے علاقے میں واقع ایک کان سے کوئلہ نکالنے کے لیے ساڑھے 4 ہزار فٹ زیرِ زمین گئے تھے جن کے کام کے دوران کان میں چنگاریاں پیدا ہونے سے دھماکہ ہوا اور کان بیٹھ گئی۔ واقعے کے فورا بعد ہی امدادی سرگرمیاں شروع کردی گئی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ امدادی کارکنوں نے پیر کی صبح تک 8 کان کنوں کی لاشیں نکال لی تھیں اور 5 افراد کو نکالا جانا ابھی باقی ہے، جو ان کے بقول قوی امکان ہے کہ زندہ نہیں بچے ہوں گے۔ افتخار احمد نے بتایا کہ کان میں بہت زیادہ گیس بھری ہوئی ہے جس کے باعث پہلے گیس کے اثر کو ختم کیا جائے گا اور اس کے بعد باقی کان کنوں کو نکالنے کی کوشش کی جائیگی۔ انہوں نے کہا کہ ہلاک ہونے والے 8 مزدوروں کی میتوں کو ان کے آبائی علاقوں کو روانہ کردیا گیا ہے۔ 7 مزدوروں کا تعلق خیبر پختونخوا جبکہ ایک کا تعلق کوئٹہ سے تھا۔ چیف انسپکٹر کول مائنز کا کہنا تھا کہ اس وقت ان کی پوری توجہ کان میں موجود لاشیں نکالنے پر مرکوز ہے اور واقعے کی تحقیقات لاشیں نکالنے کے بعد کی جائیں گی۔ بلوچستان کے 5 اضلاع کوئٹہ، لورالائی، سبی، بولان اور ہرنائی میں کوئلے کے کروڑوں ٹن ذخائر ہیں جن کو نکالنے کے لیے ڈھائی ہزار سے زائد کانیں بنائی گئی ہیں ان کانوں سے 40 ہزار سے زائد مزدور سالانہ 90 لاکھ ٹن سے زیادہ کوئلہ نکالتے ہیں ان کانوں میں اکثر و بیشتر حادثات پیش آتے رہتے ہیں۔ رواں سال مئی میں ضلع کوئٹہ کے نواحی علاقے میں موجود کوئلے کی کانوں میں دو دھماکوں سے 23 کان کن، اپریل میں ضلع قلات کے علاقے میں ایک کان میں دھماکے سے چھ کان کن جب کہ گزشتہ سال ستمبر میں ایک ہفتے کے دوران پیش آنے والے تین مختلف حادثات میں آٹھ کان کن ہلاک ہوگئے تھے کان کنوں کی انجمن کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران کان کے اندر گیس بھرنے اور دیگر وجوہات کے باعث دو درجن سے زائد واقعات پیش آچکے ہیں جن میں 100 سے زائد کان کن لقمہ اجل بن چکے ہیں انجمن کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ بیشتر کوئلہ کانوں میں تازہ ہوا کے اندر آنے اور کان میں دھماکہ ہونے یا آگ لگنے یا دیگر ہنگامی صورتِ حال میں نکلنے کے لیے متبادل راستہ نہیں ہوتا جو حادثات کی اہم وجوہات ہیں حکومت بلوچستان کے متعلقہ محکمے کا موقف ہے کہ کانوں کے لیے طے شدہ قواعد و ضوابط پر عمل نہ کرنے والے کان مالکان پر جرمانہ کیا جاتا ہے اور اس حوالے سے موجود تمام قوانین پر عمل درآمد کرایا جاتا ہے دریں اثناء اسسٹنٹ کمشنر جنید اقبال نے ’’ آن لائن‘‘ کو بتایا کہ سنجدی میں واقع کوئلہ کان میں اب تک 12 کانکنوں کی لاشیں نکال لی گئی ہیں جبکہ16 کو بے ہو شی کی حالت میں نکال لیا گیا ہے ریسکیو اور دیگر اداروں نے مل کر کانکنوں کو کوئلہ کان سے نکال دیا جاں بحق ہونیوالے کانکنوں کا تعلق خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں شانگلہ، سوات ، دیر اور ایک کا تعلق کوئٹہ سے ہے لاشوں کو ضروری کا رروائی کے بعد آبائی علاقوں کو ایمبولینسز کے ذریعے روانہ کر دیا گیا مزید کارروائی کی جا رہی ہے۔