سندھ نہیں بدلا۔۔۔ کیوں کہ بھٹو زندہ ہے! 

223

پاکستان تحریک انصاف جمہور کی طاقت سے ایوانوں میں شور مچاتے ہوئے آئی تو سوائے اندرون سندھ کے پورا ملک ہی بدل گیا۔ ’’روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی رے ‘‘ کی بازگشت میں قومی اسمبلی کا ماحول بھی ایسا بدلا کہ ماضی میں طویل عرصے تک ایک دوسرے کی مخالفت کرنے والی جماعتیں ایک دوسرے کی ساتھی بن گئیں۔ کرکٹ کے میدان کا چمپئن عمران خان ملک کا نمبر ون سیاست دان بن گیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ سندھ میں تبدیلی کیوں نہیں آئی؟ خیال ہے کہ سندھ میں ’’بھٹو زندہ‘‘ ہے اس لیے صوبہ نہیں بدلا۔ حالاں کہ پورا یقین ہے کہ سابق وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کے بانی و چیئرمین زندہ ہوتے تو پیپلز پارٹی کا آصف زرداری سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ بھٹو کے کوٹے سے سندھ کو مسلسل فائدہ اور کراچی کے مہاجروں یا اردو بولنے والوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اسی فرق ہی کی وجہ سے ہر طرف تبدیلی آچکی ہے مگر سندھ میں نہیں آسکی۔
کراچی کی یہ بدقسمتی ہے کہ یہ صوبہ سندھ کا دارالحکومت ہے اور یہی بات سندھی بھائیوں کے لیے باعث خوش قسمتی ہے۔ مگر سندھی قوم پرستوں کو ماننا پڑے گا کہ کراچی کی اکثریتی آبادی ہی نہیں بلکہ بلوچ اور دیگر قوموں پر مشتمل لیاری نے بھی پیپلز پارٹی سے منہ موڑ لیا۔ باوجود اس کے 25 جولائی کے عام انتخابات کے نتیجے میں سندھ اسمبلی کی مجموعی نشستوں کی تعداد 168 ہے جس میں پیپلز پارٹی نے 74 نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے ملک بھر ہونے والی تبدیلی کو بریک لگادیا کیوں کہ سندھ میں کسی بھی جماعت کو حکومت بنانے کے لیے 68 نشستیں درکار ہوتی ہیں۔ اس طرح پیپلز پارٹی مسلسل تیسری مرتبہ آئندہ پانچ سال کے لیے صوبے میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ لیکن اسے دیگر جماعتوں پر مشتمل مضبوط اپوزیشن کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ ممکنہ طور پر سندھ کی اپوزیشن میں تحریک انصاف کے 18، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان 12، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس 11، مسلم لیگ ن اور متحدہ مجلس عمل کے ایک ایک نمائندے ہوں گے۔ پیپلز پارٹی کی سندھ اسمبلی میں برتری کی وجہ سے سندھ میں گزشتہ دس سال سے مسلسل قائم پیپلز پارٹی اقتدار میں آجائے گی اس طرح یہاں کوئی تبدیلی آنے کا امکان نہیں ہے۔ چوں کہ وزیراعلیٰ کے لیے مراد علی شاہ اور اسپیکر کے لیے آغا سراج درانی نامزد کیے جاچکے ہیں اس لیے بھی سب کچھ ویسا ہی رہے گا جیسا گزشتہ دس سال سے ہے۔ سندھ حکومت تبدیل نہ ہونے کی وجہ سے کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں کے لوگوں کو خدشات ہیں کہ ان کے اور ان کے علاقوں کے حالات بھی جوں کے توں رہیں گے۔ مطلب کہ کراچی کے لوگوں کو پانی کی مسلسل کمی کا سامنا رہے گا۔ سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کی بدولت کچرے کے ڈھیر جگہ جگہ رہیں گے، بلدیہ عظمٰی کراچی کو فنڈز کی کمی کے ساتھ اختیارات نہ ہونے کی شکایت رہے گی۔سرکاری تعلیمی اداروں سمیت دیگر محکموں میں اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے سندھی بھائیوں کا راج رہے گا۔ سندھ سیکرٹریٹ کراچی میں ہونے کے باوجود لاڑکانہ، نواب شاہ، سکھر، سہون اور بدین کے محلوں کی عکاسی کرے گا۔ اردو بولنے والے یا قابل مہاجر افسران کو چن چن کر سائیڈ لائن کردیا جائے گا۔ اور اب سے بڑی بات کرپشن کا بول بالا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ نئی قائم ہونے والی حکومت میں بھی کرپٹ عناصر کے مفاد میں ایک بار پھر نیب کے راستے مسدود کرنے کی کوشش کی جائے۔ لیکن کراچی کے لوگوں کی بس اتنی سی خواہش ہے کہ ان کے شہر میں چائنا کٹنگ کی طرز پر لاڑکانہ کٹنگ نہ ہو۔ کراچی کے اداروں میں یہاں کے دیہی علاقوں کے باشندوں کے نام پر غیر مقامی افسران و ملازمین کا ہجوم نہ لگادیا جائے۔ محکمہ پولیس کو انور مجید یا ان جیسوں کے سپرد نہ کیا جائے۔