نئی اسمبلی میں اپوزیشن کے اختلافات۔ پی ٹی آئی کی خوش قسمتی 

202

ملک کی تاریخ میں پہلی بار جمہوری عمل کے مسلسل تیسرے دور کے لیے قومی و صوبائی اسمبلیاں صرف دو ماہ کے وقفے کے بعد پیر کو پھر آباد ہوگئیں۔ نئے جمہوری دور کا پہلا دن اسمبلیوں میں اس لیے بھی خوشگوار نظر آیا کہ مشترکہ اپوزیشن کی طرف سے نہ قومی اور نہ ہی سندھ اسمبلی میں شور شرابا ہوا۔ خدشات تھے کہ اجلاس میں دھاندلی پر احتجاج کیا جائے گا اور بعض ارکان احتجاجاً بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھیں گے۔ یہ خدشات اس لیے پیدا ہوئے تھے کہ ایم ایم اے کے رہنما مولانا فضل الرحمن نے انتخابات کے تین روز بعد اے پی سی سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ ان کے اراکین اسمبلی میں تو جائیں گے مگر احتجاجاً بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھیں گے۔ لیکن ایسا نہیں کیا جاسکا، جس سے ایسا تاثر ابھرا کے عام انتخابات کے نتائج پر تمام مخالفین نے ’’کمپرومائز یا مفاہمت‘‘ کرلی ہے۔
اگر ایسا کیا گیا تو یہ پاکستان تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین اور ممکنہ وزیراعظم عمران خان کی خوش قسمتی ہوگی۔ لیکن 15 ویں منتخب قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس کے ماحول کو دیکھ کر حتمی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ آئندہ بھی اسمبلی کا ماحول شور شرابے سے پاک ہوگا۔ خیال تھا کہ اگر ایسا ہوجائے تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ واقعی خوشگوار ’’تبدیلی‘‘ آچکی ہے اور سیاسی جماعتوں میں بھی ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا رجحان پیدا ہورہا ہے۔ لیکن بدھ کو اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخابات کے روز گرینڈ اپوزیشن الائنس میں شامل مسلم لیگ ن کے ایک رکن مرتضی جاوید کی جانب سے احتجاج کیا گیا انہوں اچانک ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگایا تو مسلم لیگ نواز کے دیگر ساتھیوں نے بھی ان کا ساتھ دیا اس طرح قومی اسمبلی کے رواں سیشن کے دوسرے اجلاس ہی میں شور شرابا ہوگیا اور ایوان زریں کا ماحول خراب ہوا۔ مگر یہ احتجاج صرف مسلم لیگ نواز تک محدود رہا۔
بدھ کے اجلاس میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے عہدے کے لیے 2، 2 امیدوار میدان میں تھے جن میں اسپیکر کے عہدے کے لیے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اسد قیصر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سید خورشید شاہ کے درمیان مقابلہ تھا اور اسد قیصر کامیاب رہے۔ دوسری جانب ڈپٹی اسپیکر کے لیے تحریک انصاف کے قاسم سوری اور اپوزیشن کے اسد محمود میدان میں تھے خفیہ رائے شماری کے نتیجے میں تحریک انصاف کے قاسم سوری ڈپٹی اسپیکر ہوگئے۔ اب آئندہ اجلاس میں قائد ایوان یعنی وزیراعظم کا انتخاب ہوگا جس میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی کامیابی یقینی نظر آرہی ہے۔ جب آپ یہ کالم پڑھ رہیں ہوں ممکن ہے اس وقت وزیراعظم عمران خان منتخب ہوکر حلف اٹھا چکے ہوں۔ بہرحال یہاں ذکر نئی اسمبلی اور نئی حکومت کا کیا جارہا ہے۔ یاد رہے کہ تحریک انصاف تو پہلے ہی اس بات کا اعلان کرکے ’’ چھکا‘‘ لگا چکی ہے کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلے گی۔ لیکن دوسرے اجلاس میں ہونے والے احتجاج سے لگتا ہے کہ مسلم لیگ نواز حزب اقتدار کو باآسانی حکومت کرنے نہیں دے گی۔
نئی قومی اسمبلی کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اس میں ملک کا سابق صدر بھی موجود ہے۔ سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کی قومی اسمبلی میں موجودگی سے جمہوریت کے جاری ادوار کو استحکام ملے گا۔ بہرحال عمران خان اور ان کی جماعت کی خوش قسمتی ہے کہ ان کی کامیابی اور تبدیلی کے نعروں کے ساتھ ایوان میں پہنچتے ہی گرینڈ اپوزیشن میں اتفاق باقی نہیں رہا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز میں بھی اختلافات سامنے آنے لگے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے اس کا اظہار بدھ کو اسمبلی اجلاس کے بعد کر بھی دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے لیے شہباز شریف کی نامزدگی پر انہیں اعتراض ہے۔ جب کہ متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کی اتحادی جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا کہ: ’’ہم اپوزیشن کے ساتھ ضرور ہیں مگر (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کی کسی ڈکٹیشن کا حصہ نہیں بنیں گے اور ہم اپنی پالسیوں کو لے کر چلیں گے‘‘۔
انہوں نے دونوں جماعتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ: ’’پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اگر نظام کو بہتر کرتے تو آج اپوزیشن کو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے‘‘۔ اپوزیشن کی جماعتوں میں اختلافات حکومتی جماعت کے لیے خوش آئند ہوتا ہے اور جب یہ اختلافات ابتدائی ایام ہی میں شروع ہوجائیں تو یقین ہونے لگتا ہے کہ اس طرح کا اتحاد غیر فطری طور پر تھا اور اسے صرف مجبوراً بنایا گیا تھا۔