مجبور ماں کی خود سوزی کی کوشش

186

گزشتہ بدھ کو عدالت عالیہ سندھ میں 20 لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران میں ایک مجبور ماں نے خود پر پیٹرول چھڑک کر خودکشی کی کوشش کی جس کا بیٹا چھ سال سے لاپتا ہے۔ عدالت کی سیکورٹی پر مامور اہل کاروں نے خاتون کی یہ کوشش ناکام بنادی لیکن پاکستان میں ایسے کتنے ہی مجبور اور بے کس والدین ہوں گے جو اپنے بیٹوں کی پر اسرار گمشدگی سے اپنی زندگی سے مایوس ہوگئے ہیں۔ معاملہ عدالت میں آتا ہے۔ وہ رینجرز اور پولیس کو طلب کرتی ہے اور وہ کہہ دیتے ہیں کہ لاپتا شخص ان کے پاس نہیں ہے۔ اس کے بعد عدالت کیا کرسکتی ہے؟لاپتا محمد فیصل کی والدہ کا کہناہے کہ فیصل کو حراست میں لینے والوں کو لوگوں نے دیکھا ہے اس کی بازیابی کے لیے ہر جگہ رابطہ کرتے رہے لیکن کوئی سراغ نہیں ملا۔ اگر لوگوں کو پولیس اور رینجرز نے نہیں اٹھایا تو وہ کس کے قبضے میں ہیں، یہ معلوم کرنا پولیس اور دیگر ایجنسیوں کا کام ہے لیکن ان کے بھی پر جلتے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ لوگوں کو سب کے سامنے اٹھایا جاتا ہے، ان کے ساتھ پولیس کی گاڑیاں بھی ہوتی ہیں تاکہ محلے والے مداخلت نہ کرسکیں مگر پولیس بھی کچھ بتانے پر تیار نہیں ہوتی۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی گمنام فون آجاتا ہے کہ چپ کرکے بیٹھ رہو، بندہ واپس آجائے گا۔ لیکن چھ سال تو بہت ہوتے ہیں۔ ہر آس ٹوٹ جاتی ہے، امید کے چراغ بجھ جاتے ہیں۔ اگر لاش ہی مل جائے تو صبر آجائے لیکن یہ بھی نہیں ہوتا۔ اگر کسی کو کسی جرم کے شبہے میں اٹھایا جائے تو اس کی ایف آئی آر درج کرکے مقدمہ عدالت میں پیش کیا جائے تاکہ لواحقین کو اس کے زندہ رہنے کا علم تو ہو۔ عدالت عالیہ سندھ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی سندھ کو خود تحقیقات کرنے کا حکم دیا ہے اور سماعت 5 ستمبر تک ملتوی کردی۔ عدالت اتنا ہی کرسکتی ہے۔ چیف جسٹس پوچھتے ہیں کہ بچے لاپتا کیوں ہوتے ہیں۔