چودھری پرویز الٰہی کی واپسی

191

قومی اسمبلی کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے ساتھ ہی صوبائی اسمبلیوں میں بھی یہ مراحل طے پاگئے۔ توقع کے عین مطابق قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے نامزد کردہ اسد قیصر نے اسپیکر کا حلف اٹھالیا۔ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری بھی تحریک انصاف سے ہیں۔ اسد قیصر کے مقابلے میں بظاہر متحدہ حزب اختلاف کے امیدوار خورشید شاہ تھے۔ اسد قیصر کو 176 اور خورشید شاہ کو 146 ووٹ ملے۔ دونوں میں 30 ووٹوں کا فرق ہے۔ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے اسپیکر سے زیادہ یعنی 183 ووٹ حاصل کیے جس کا مطلب ہے کہ حزب اختلاف کے کچھ ارکان نے بھی ان کو ووٹ دیے۔ قومی اسمبلی میں 8 ووٹ مسترد ہوئے۔ یہ اس لحاظ سے حیرت انگیز ہے کہ ووٹ ڈالنے والے منتخب ارکان اسمبلی تھے لیکن ان میں سے 8 کو یہ معلوم نہیں تھا کہ صحیح طریقے سے ووٹ کیسے ڈالے جاتے ہیں کہ مسترد نہ ہوں۔ جن کو ووٹ ڈالنا نہ آئے وہ قانون سازی کے مرحلے میں کیا کریں گے۔ عام شہری ایسی غلطی کرے تو نظر انداز کی جاسکتی ہے۔ قومی اسمبلی میں اسپیکر کے انتخاب کے موقع پر حسب روایت اور حسب توقع ہنگامہ آرائی ہوئی اور حزب اختلاف نے احتجاج کیا لیکن اس میں پیش پیش مسلم لیگ ن تھی۔ اس کے ارکان نے ’’ووٹ کو عزت دو، نواز شریف کو رہا کرو‘‘ کے نعرے لگائے۔ پیپلزپارٹی اس احتجاج سے لا تعلق رہی اور آصف زرداری ایوان ہی سے باہر چلے گئے۔ تحریک انصاف میں شامل ہونے والے ایم کیو ایم کے سابق رکن عامر لیاقت حسین تو آصف زرداری کے قدموں میں بیٹھ گئے تھے کہ کوئی احتجاج ان کی نئی پارٹی کے خلاف نہ کیا جائے۔ اس طرح وہ عمران خان کی نظروں میں سرخرو بھی ہوگئے ہوں گے۔ ویسے بھی پیپلزپارٹی متحدہ حزب اختلاف کا عملی حصہ نہیں رہی۔ آج 17 اگست کو عمران خان متوقع طور پر وزیراعظم منتخب ہوجائیں گے۔ حزب اختلاف نے ان کے مقابلے میں شہباز شریف کا نام تجویز کیا ہے لیکن پیپلزپارٹی نے ان کی حمایت کرنے سے صاف انکار کردیا ہے۔ پیپلزپارٹی کی خواہش ہے کہ ن لیگ شہباز شریف کی جگہ اپنی پارٹی کے کسی اور فرد کا نام تجویز کرے تو غور کیا جاسکتا ہے۔ نو منتخب رکن قومی اسمبلی بلاول زرداری کا کہناہے کہ نام تبدیل کرانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ اس پر مسلم لیگ ن کا کہناتھا کہ اگر ن لیگ کے معاملات کا فیصلہ بلاول کریں گے تو پیپلزپارٹی کے معاملات شہباز شریف کے سپرد کردیے جائیں۔ صورتحال واضح ہے کہ نہ تو ن لیگ شہباز شریف کا نام واپس لینے پر آمادہ ہے اور نہ ہی پیپلزپارٹی ان کو وٹ دے گی۔ اس طرح پیپلزپارٹی بالواسطہ طور پر تحریک انصاف کا ساتھ دے گی جو حکومت بنانے جارہی ہے۔ پیپلزپارٹی کے سامنے اپنے قائد آصف علی زرداری کو بچانے کا مسئلہ اہم ہے اور تجزیہ کاروں کے مطابق وہ اب تحریک انصاف کے لیے فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی۔ یاد رہے کہ عمران خان پیپلزپارٹی پر الزام لگاتے رہے ہیں کہ وہ مسلم لیگ ن کی حکومت میں فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کررہی ہے۔ اب یہی کردار وہ تحریک انصاف کے لیے ادا کرنے پر تیار ہے اس توقع پر کہ شاید نئی حکومت آصف علی زرداری اور ان کے دوستوں پر چلنے والے مقدمات میں ہاتھ ہلکا رکھے۔ ہر چند کہ مقدمات عدالتوں میں ہیں اور فیصلہ بھی وہی کریں گی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ استغاثہ حکومت کی نمائندگی کرتا ہے جو گواہ اور ثبوت پیش کرتا ہے۔ آصف زرداری پر برسوں مقدمات چلتے رہے اور وہ اپنے پسندیدہ مقام پر قید بھی رہے لیکن ہر الزام سے بری ہوتے گئے۔ کوئی ثبوت نہ گواہ۔ ایسا ہی کچھ ایک بار پھر ہوسکتا ہے۔ آصف زرداری کی برأت کو پیپلزپارٹی بطور مثال پیش کرتی ہے کہ ہم تو مقدمات کا سامنا کرتے اور بری ہوتے رہے ہیں۔ ن لیگ کے بڑبولے رانا ثنااﷲ لاکھ کہتے رہیں کہ ’’اپوزیشن کا اتحاد جتنا مضبوط ہوگا زرداری کے لیے بہتر ہوگا‘‘۔ زرداری خوب سمجھتے ہیں کہ ان کے لیے اس وقت کیا بہتر ہے۔ رہا اپوزیشن کا اتحاد تو اسے بھول ہی جانا چاہیے۔ جمعرات ہی کو پنجاب اسمبلی کے اسپیکر کا انتخاب ہو جس میں ق لیگ کے رہنما چودھری پرویز الٰہی تحریک انصاف کی حمایت سے کامیاب ہوگئے۔ یہاں بھی ن لیگ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا جس سے واضح ہے کہ پنجاب بھی ن لیگ کے ہاتھ سے نکل رہا ہے اور تمام دعوے نقش بر آب ثابت ہورہے ہیں۔ اس انتخاب میں چودھری پرویز الٰہی کو مسلم لیگ ن کے 15 ووٹ بھی ملے ہیں جس سے یہ خدشہ سچ ثابت ہوگیا کہ ن لیگ میں فارورڈ بلاک بنانے میں کامیابی ہوگئی ہے۔ پرویز الٰہی کو 201 ووٹ ملے ہیں جن میں دو ووٹ پیپلزپارٹی کے بھی ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی کی جمہوریت نوازی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، عمران خان کو بھی معلوم ہوگا لیکن وہ تو خود بھی ایک آمر جنرل پرویز کے مداح رہے ہیں جنھوں نے کنگز پارٹی قائد اعظم مسلم لیگ قائم کی تھی۔ چنانچہ یہ پرویز الٰہی ہی تھے جنھوں نے وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے نعرہ لگایا تھا کہ ہم آئندہ دس مرتبہ جنرل پرویز مشرف کو وردی میں صدر بنائیں گے۔ ان کی وردی اتری تو ق لیگ بھی اپنی حیثیت کھو بیٹھی۔ اب ایسے آمریت نواز اور وردی کے اسیر شخص سے جمہوری اقدار کی پاسداری کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔ ممکن ہے کہ وردی سے اظہار عقیدت کی وجہ سے وہ اب بھی وردی والوں کے پسندیدہ ہوں۔ عمران خان نے تخت پنجاب پر قبضے کے لیے ق لیگ کو اپنے ساتھ شامل کرلیا ہے اور بھان منی کا کنبہ تیار ہے۔ ایسے لوگ ماضی میں حکومتوں میں شامل ہوکر بلیک میل کرتے رہے ہیں۔ ایم کیو ایم نے بھی نئی شرائط پیش کردی ہیں۔ تحریک انصاف کے لیے قابل اطمینان بات یہ ہے کہ اسے قومی اسمبلی میں پیپلزپارٹی کی سخت مخالفت کا سامنا نہیں ہوگا گو کہ نو عمر بلاول کہہ چکے ہیں کہ میں دکھاؤں گا اپوزیشن کیسے کی جاتی ہے۔