کشمیر، امریکا اور حسین ہارون کی مایوسی

232

 

نگران وزیر خارجہ حسین عبداللہ ہارون ملک کے معروف سیاسی، صحافتی اور صنعت کار خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ حسین ہارون خود بھی کئی ذمے دار عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ نگران وزیر خارجہ کے طور پر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ چند برس قبل تک وہ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔ حسین ہارون نے جسارت کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کشمیر کے بارے میں کچھ نہیں کرے گا وہ صرف ہندوستان کے تحفظ میں دلچسپی رکھتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب کرنے کا کام یہ ہے کہ کشمیریوں کے آگے لائیں انہیں وکلا فراہم کریں۔ ان سے کہیں کہ وہ اپنا مقدمہ ورلڈ کاک میں لے کر جائیں۔ وہ دنیا کو بتائیں کہ یہ سب کچھ کشمیری اپنے بل بوتے پر کر رہے ہیں اور ان سے پوچھا جائے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ حسین ہارون کے خیالات ان کے تجربے کا نچوڑ ہیں۔ حسین ہارون مغربی دنیا اور بھارت سے مرعوب سفارت کار بھی نہیں رہے بلکہ وہ پاکستان کا مقدمہ پوری جرات کے ساتھ پیش کرتے رہے ہیں۔ اب حالات اور تجربات نے انہیں امریکا کے رویے سے مایوس کر دیا ہے۔ اس مایوسی کی وجہ بھی یہ ہے کہ امریکا اپنی پوری توانائی اور صلاحیت بھارت کو خطے میں مضبوط اور بالادست بنانے کے لیے صرف کیے ہوئے ہے۔ امریکا نے اس مقصد کے لیے اپنے مفادات کو بھارت کے مفادات کے ساتھ ٹیون کر دیا ہے۔ پاکستان جیسا کوئی دوسرا ملک اس ٹیوننگ میں مخل نہیں ہو سکتا۔ بھارت اور امریکا کے یارانے میں کسی کو ’’کیدو‘‘ بننے کی اجازت نہیں۔ امریکا کا یہ تعلق مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دنیا میں صرف اسرائیل کے ساتھ رہا تھا۔ اب امریکا کا ایک نہیں دو اسرائیل ہیں۔ دونوں کی راہوں کے کانٹوں کو پلکوں سے چننا امریکا کا مقصد اور مدعا ہے۔ دونوں کے مخالفین کو امریکا نے اپنا مخالف قرار دے رکھا ہے۔ ایسے میں مغربی بلاک میں پاکستان کی زبانی کشمیریوں کی کتھا سنی جائے گی اس کا امکان نہیں۔ اس کا حل وہی ہے کہ جو حسین ہارون نے بیان کیا کہ کشمیریوں کو خود اپنا مقدمہ پیش کرنے کا موقع دیا جائے۔ وہ اپنی داستان غم اپنی زبان سے بیان کریں۔ وہ اپنا زخمِ سینہ دنیا کو خود دکھائیں۔ دنیا میں جس طرح مفاد پرستی، مادیت اور سرمائے کا راج ہے اس ماحول میں یہ امکان بھی کم ہے کہ مغرب کا ضمیر اچانک جاگ جائے گا اور کشمیریوں کو حق خودارایت دلانے کے سرگرم کردار ادا کرنے پر تیار ہوجائے گا مگر اس سے بے حسی کی برف کچھ نہ کچھ پگھلنا شروع ہوجائے گی۔ ماضی میں بھی پاکستان کے منصوبہ ساز اسی نتیجے پر پہنچتے رہے ہیں کہ کشمیریوں کو اپنا مقدمہ خود پیش کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ ایوب خان کے دور میں یہ سوچ فیصلہ ساز اداروں میں بڑی حدتک حاوی آچکی تھی مگر پھر اس سوچ کو رپورس گیئر لگ گیا تھا۔ آزادکشمیر میں ایک نیم خود مختار حکومت کا قیام بھی اسی سوچ کا مظہر تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مصلحتیں اور بسا اوقات مجبوریاں بھی حائل ہوتی رہیں اور پاکستان ایک ازکار رفتہ اور زنگ آلود پالیسی کو آگے بڑھاتا رہا۔ اب عمران خان کی قیادت میں پاکستان کی کشمیر پالیسی کا ازسر نو پارلیمنٹ میں جائزہ لیا جانا چاہیے۔ ان کا یہ عزم خوش آئند ہے کہ تمام بڑے فیصلے پارلیمنٹ میں کیے جائیں گے۔ پاکستان کی ستر سالہ کشمیر پالیسی بھی بڑے فیصلے کی متقاضی ہے اور اچھا ہوگا کہ اگر اس بڑے فیصلے کے لیے پارلیمنٹ سے رجوع کیا جائے۔ یہ ایک حساس معاملہ بھی ہے ماضی میں اس مسئلے پر بڑے فیصلوں کے تنہا شوق اور سارا کریڈٹ سمیٹنے کے چکر میں حکمران سیاسی حادثات بھی کروا بیٹھتے رہے۔ میاں نوازشریف پارلیمنٹ کی طاقت کے زعم میں کشمیر پر اکیلے اکیلے اور چپکے چپکے تنہا بڑے فیصلے کے شوق میں کہیں سے کہیں جا پہنچے۔ بعد میں جنرل پرویز مشرف بھی وردی کی طاقت کے زعم میں اسی راہ پر چل پڑے مگر وہ بھی کہیں کے نہیں رہے۔ اب نئی حکومت ایک قومی اتفاق رائے کے لیے پارلیمنٹ سے رجوع کرسکتی ہے اور اس میں افواج پاکستان اور ریاستی اداروں کا بھرپور فیڈ بیک لیا جانا چاہیے اور ایک مکمل اتفاق رائے سے نئی کشمیر پالیسی تشکیل دینا چاہیے۔ مولانا فضل الرحمن اب کشمیر کمیٹی کے سربراہ نہیں رہے ان سے عمومی طور پر یہی گلہ کیا جاتا تھا کہ قادرالکلام شخصیت کشمیر کے معاملے میں کم گو واقع ہو رہی ہے۔ گزشتہ دور میں چار سال وزیر خارجہ کے بغیر ہی کام چلتا رہا مگر معاملہ کشمیرکمیٹی میں چہروں کی تبدیلی اور وزیرخارجہ ہونے یا نہ ہونے کا نہیں کشمیر پالیسی کا ہے۔ حسین ہارون جیسے ذہین اور زمانہ شناس سفارت کار اور دانشور کی بات کو ہواؤں میں نہیں اُڑایا جانا چاہیے۔ تجربے سے پھوٹ پڑنے والے اس تجزیے کی روشنی میں ٹھوس اقدامات اُٹھائے جانے چاہیے۔ زحقیقت یہ ہے کہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے دوست اور بہی خواہ وہی ہیں جو دوسرے معاملات میں پاکستان کے دوست اور معاون ہیں۔ جو دوسرے معاملات میں پاکستان کے درپے آزار ہیں ان ملکوں سے کشمیر پر پاکستان یا کشمیریوں کی مدد کی توقع بھی عبث ہے۔ اچھا ہے کہ پاکستان اپنی توانائیاں تقسیم کرنے کے بجائے اپنے قریبی اور دوست ملکوں کو کشمیرکے حوالے سے یکسو اور یکجہت رکھے۔