امت مسلمہ کا ہیرو

173

 

 

18 اگست‘ 1988ء کو جہاز کے ایک حادثے نے جنرل ضیاء الحق کو ہم سے چھین لیا‘ ضیاء الحق کے خاندان کے لیے یہ ایک بڑا صدمہ تھا لیکن امت کے لیے یہ حادثہ کسی قیامت صغریٰ سے کم نہیں تھا اس حادثے میں جنرل ضیاء الحق سمیت پاک فوج کے انتیس افسروں اور جوانوں کی شہادت ایک قومی نقصان بھی تھا جنرل ضیاء الحق نے سپاہی کی حیثیت سے فوج میں ملازمت اختیار کی اور جرنیل کے عہدے تک پہنچے‘ وہ اہل پاکستان کے لیے تو جرنیل تھے لیکن امت مسلمہ کے لیے وہ ایک رہنماء بھی تھے۔ جن سیاسی حالات میں انہیں ملک کا نظم و نسق سنبھالنا پڑا بلاشبہ یہ ملک کے لیے نہایت غیر معمولی حالات تھے مشرقی پاکستان کو ہم سے الگ ہوئے سات سال ہوئے تھے اور پاکستان کے قیام کو تیس سال ہونے والے تھے ایک فوجی جرنیل کے طور پر سیاست میں آنا‘ ملک کا نظم و نسق سنبھالنا کسی بھی جمہوری معاشرے میں قابل قبول نہیں سمجھا جاتا لیکن جنرل ضیاء الحق نے جن حالات میں یہ قدم اٹھایا پوری قوم نے نجات دہندہ کے طور پر ان کا خیر مقدم کیا‘ سیاسی لحاظ سے یقیناًاس پر بہت بات کی جاسکتی ہے اور بات ہونی بھی چاہیے کہ اسی سے ہماری جمہوریت مستحکم ہوگی اور اس کی کمزوریاں دور ہوسکتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں کی اصلاح بھی اسی بحث کے نتیجے میں ہونے کی امید ہے۔جنرل ضیاء الحق کبھی حکومت نہ سنبھالتے اگر بھٹو حکومت ملک میں پائیدار جمہوری روایات کا پرچار کرتی‘ اسمبلیوں سے سیاسی رہنماؤں کو اٹھا کر باہر نہ پھینکا جاتا‘ سیاسی مخالفین کو قتل نہ کیا جاتا ہے‘ یہ بھٹو دور یہ تھا جب نواب محمد احمد خان قتل ہوئے‘ ڈاکٹر نذیر احمد شہید ہوئے‘ سر بازار خواجہ محمد رفیق کی سانسوں کی ڈوری کاٹی گئی‘ ووٹ کے تقدس اور انتخابات میں دھاندلی کے خلاف عوامی تحریک کچلنے کے لیے پولیس مسجد وزیر خان میں گھسی‘ نو اپریل کو درجنوں شہری پولیس کی فائرنگ سے شہید ہوئے‘ ان تمام واقعات نے ملک میں جمہوری حکومت کے خلاف سیاسی نفرت ابھار دی تھی اور بھٹو حکومت ملکی تاریخ کی غیر مقبول حکومت بن چکی تھی اسی لیے ملک میں مارشل لا لگنے پر شہر شہر حلوے کی دیگیں بانٹی گئیں۔بلا شبہ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ملک ہے یہاں ووٹ کی طاقت سے ہی حکومت بننی اور بدلنی چاہیے‘ اس کے علاوہ اور کوئی بھی طریقہ آئین میں موجود نہیں ہے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کے نفاذ کے خلاف بیگم نصرت بھٹو نے عدلیہ سے رجوع کیا‘ اس کیس کا فیصلہ لکھا گیا تو عدالت نے واضح کیا کہ: ’’جب ملک میں آئینی مشینری ناکام ہوجائے‘ حکومت شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی پاس داری نہ کرے‘ ان کے جان و مال کے تحفظ کی ذمے داری پوری کرنے کے قابل نہ رہے تو ملک میں غیر جمہوری اقدام کو جائز سمجھا جاسکتا ہے۔ یہ فیصلہ عدالت عظمیٰ نے دیا تھا اس فیصلے پر آئینی ماہرین‘ سیاسی تجزیہ کار اور قانون دان اپنی رائے دے سکتے ہیں اور دیتے آئے ہیں لیکن کوئی اس بات سے ا نکار نہیں کر سکتا کہ جمہوری حکومت کے فرائض میں یہ بات شامل ہے کہ وہ آئین کے مطابق شہریوں کو ان کے بنیادی‘ سیاسی‘ سماجی‘ معاشی حقوق دینے کی پابند ہے اور اگر جمہوریت شہریوں کو یہ حق نہ دے اور متبادل راستہ بھی نہ ہو پھر کیا کیا جائے‘ جواب یہ ہے کہ پھر اس کے لیے دو راستے ہیں نئے انتخابات کرائے جائیں‘ آئین خود اپنا راستہ بنائے لیکن بھٹو دور میں ایسا راستہ دینے کو کوئی بھی تیار نہیں تھا۔مارچ ۱۹۷۷ کے عام انتخابات میں دھاندلی کی بے شمار شکایات پر حکومت نے دھیان نہیں دیا تو ملک گیر عوامی تحریک شروع ہوئی جس کے بعد پاکستان قومی اتحاد اور پیپلز پارٹی کے مابین مذاکرات ہوئے تھے لیکن یہ مذاکرات کامیاب نہیں ہوسکے ان مذاکرات میں شامل پروفیسر غفور احمد کی کتاب میں گواہی موجود ہے‘ اگرچہ یہ بات کہی جاتی ہے کہ مذاکرات کامیاب ہوچکے تھی بس دستخط باقی تھے‘ یہ دستخط کیوں نہ ہوئے‘ بھٹو صاحب کیوں ادھورا کام چھوڑ کر بیرون ملک دورے پر چلے گئے ان سوالوں کا تسلی بخش جواب آج تک نہیں مل سکا۔اگر ہم ۱۹۷۷ میں ملک میں اور سرحدوں پر پیش آنے والے حالات اور واقعات کا جائزہ لیں اور اس کے ساتھ جوڑ کر جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کو دیکھیں تو ہمیں یہ بات ضرور ذہن میں رکھنا ہوگی کہ اس وقت افغانستان میں روس جارحیت کر چکا تھا‘ اس کے اثرات بھی ظاہر ہونا شروع ہوچکے تھے‘ اسے بھارت کی مکمل تائید اور حمایت حاصل تھی‘ مشرقی پاکستان کا زخم ابھی تازہ تھا‘ یہ زخم تو آج بھی تازہ ہے‘ ملک میں سیاسی انتشار اور خلفشار کی کیفیت تھی اور حکومت اپنی اس ذمے داری کو پہچاننے سے گریز کر رہی تھی یا اسے ادراک نہیں تھا‘ اس کا جواب ہم تاریخ پر چھوڑ دیتے ہیں تاہم ضیاء الحق کے مارشل لا کی بحث بھی ایک جانب رکھ دیتے ہیں ہم انہیں بطور انسان اور حکمران کے طور پر دیکھتے ہیں کہ وہ کیسے انسان اور حکمران تھے‘ جب ان کی خوبیوں کا ذکر ہوگا تو سب سے پہلے یہ بات ہوگی وہ ایک خوف خدا رکھنے والے حکمران تھے، محب وطن تھے‘ وطن کے دفاع کے لیے اپنی جان قربان کر دینے والے حکمران تھے۔مارشل لا ہو یا سول حکمرانی‘ جمہوریت ہو یا شخصی راج‘ کوئی بھی اس وقت تک نہیں چل سکتا جب تک اسے عوام کی حمایت اور تائید نہ ہو‘ جنرل ضیاء الحق کو بھٹو حکومت کے طرز عمل کے باعث عوام کے ایک بڑے طبقے نے قبول کیا‘ جنرل ضیاء الحق اگر نوے روز کے اندر انتخابات کراکے واپس چلے جاتے تو آج وہ ملک کے غیر متنازع رہنماء ہوتے اور تاریخ میں انہیں اپنے اور پرائے دونوں یکساں نظروں سے دیکھتے لیکن وہ یہ کام نہیں کر سکے اور اور ان کا اقتدار گیاہ برسوں تک محیط رہا‘ بھٹو کی پھانسی نے سیاسی تلخیاں بھی پیدا کیں‘ بھٹو کی پھانسی ہماری سیاسی تاریخ کا بہت ہی تلخ باب ہے۔ وہ نسل جس نے بھٹو کا دور دیکھا اور بھگتا ہے وہ بھٹو دور میں روا رکھے جانے والے غیر انسانی سلوک کی گواہ ہے‘ سیاسی مخالفین کے ساتھ جو سلوک اس زمانے میں ہوا‘ بعد میں کبھی ایسا نہیں ہوا‘ بھٹو کی پھانسی کے بعد پیپلزپارٹی تین بار اقتدار میں آئی لیکن پیپلزپارٹی کے یہ تینوں ادوار بھٹو دور سے بہت مختلف تھے اور اسی لیے پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف کسی بھی ردعمل میں فوج نے ملک کا نظم و نسق نہیں سنبھالا‘ بارہ اکتوبر ۱۹۹۹ کا واقعہ سیاسی اور جمہوری حکومت کے اقدام کے خلاف ایک رد عمل تھا جس کی تائید خود اس وقت پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ نے بھی کی۔ ملک کے اندر ضیاء الحق حکومت کیسی تھی؟ دو آراء ہیں‘ پہلی رائے یہ کہ ا نہوں نے ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کی مخلصانہ کوشش کی‘ لیکن ملکی انتظامی مشینری کا رویہ تبدیل نہ کرسکے‘ کوشش کے باوجود مکمل طور پر سودی نظام ختم نہیں کرسکے‘ خارجہ محاذ پر وہ نہایت جرأت مند سپاہی ثابت ہوئے‘ بھارت جیسے دشمن ملک کے لیے وہ خوف کی علامت تھے‘ جارح روس کو دریائے آمو کے پار بھیجا‘ افغان مجاہدین کے لیے قوت بنے‘ عالم اسلام کو ایک طاقت دی‘ اقوام متحدہ میں ان کی مشترکہ آواز بنے‘ اللہ کے گھر میں متعدد بار انہیں نماز کی امامت کا شرف حاصل ہوا‘ ان کے دور میں نجی شعبے نے ترقی کی‘ ملک میں نئی صنعتیں لگی‘ سرکاری ملازمین‘ بیواؤں اور سرکاری ملازمین کے بچوں کے لیے تعلیم‘ گھر‘ اور انسانی ضروریات کے لیے اقدامات ا ٹھائے گئے لیکن بہت کچھ کرنا باقی تھا کہ سترہ اگست آن پہنچی۔جنرل ضیاء ا لحق کے لیے آج بھی پاکستان میں محبت کرنے والے بہت ہیں‘ ان کے ناقد دین کی تعداد بھی کم نہیں‘ لیکن کوئی انہیں یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ ملک کے لیے اچھا نہیں سوچتے تھے‘ اس بات پر سب یکسو ہیں کہ وہ کرپٹ نہیں تھے‘ غدار وطن نہیں تھے‘ کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا ہے کہ انہیں خدا کا خوف نہیں تھا‘ وہ راتوں کو اٹھ کر عبادت کرنے والے حکمران کے طور پر یاد کیے جاتے ہیں‘ ہاں البتہ انہوں نے ملک میں غیر جماعتی انتخابات کراکر ایک نیا تجربہ کیا‘ اور اپنی ہی اسمبلی برخاست کی‘ ملکی تاریخ میں ایسا ہی کام ایوب خان بھی کر چکے تھے کہ اپنا ہی بنایا ہوا آئین ختم کردیا‘ جنرل ضیاء الحق بلا شبہ خوبیوں کے مالک تھے لیکن ایک بات بالکل طے شدہ ہے اس ملک میں ایک آئین ہے‘ دستور ہے‘ اور اس آئین دستور کی رو سے حق حکمرانی صرف انہی کو حاصل ہے جنہیں عوام اپنے ووٹ سے منتخب کریں جنرل ضیاء الحق بطور انسان بہت خوب تھے‘ بطور رہنماء بہت اعلیٰ تھے‘ سچے اور کھرے پاکستانی تھے لیکن منتخب حکمران نہیں تھے اگر وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آتے تو حکمرانی کرتے تو ان جیسا لیڈر پاکستان کی تاریخ میں نہ ملتا۔