کسی بھی انتخاب کی شفافیت کے انحصار میں جہاں اور فیکٹر اہم ہوتے ہیں وہیں ایک درست انتخابی فہرست بھی سب سے اہم بنیاد ہوتی ہے۔ اس دفعہ کے انتخابات میں اغلاط سے بھرپور انتخابی فہرست نے امیدواروں کے لیے بہت سی مشکلات پیدا کیں۔ کئی سیاسی جماعتوں نے ماضی میں شفاف انتخابی فہرست کے لیے باقاعدہ مہم چلائی لیکن اس میں خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی۔ 2023 کے انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کو ابھی سے تیاری کرلینا چاہیے، پہلے تو کراچی کی مردم شماری کا مسئلہ حل کیا جائے پھر اس کے بعد نادرا کے ذریعے کمپیوٹرائزڈ فہرستیں بنوائی جائیں جس طرح فہرست میں ہر فرد کے نام کے سامنے ووٹر کا شناختی کارڈ نمبر لکھا ہوتا ہے اسی طرح ہر شہری کے کارڈ پر اس کا ووٹر نمبر لکھا ہونا چاہیے۔ 18سال کی عمر میں شناختی کارڈ بنتا ہے اور یہی عمر ووٹ ڈالنے کی بھی ہوتی ہے اس لیے جب کوئی نوجوان اپنا شناختی کارڈ بنوائے تو اسی وقت اس کا ووٹر لسٹ میں نام درج کرکے اس کے شناختی کارڈ پر ووٹر نمبر لکھ دیا جائے۔ یہ بظاہر تو بہت مشکل لگتا ہے لیکن نادرا اس کام کو آسانی سے کر سکتی ہے، ایسا کوئی خودکار میکنزم (طریقہ کار) بنایا جائے کہ جب کوئی فرد، ب فارم سے اپنا شناختی کارڈ بنوانے آئے تو وہ کارڈ ہولڈر کے ساتھ ہی ساتھ ووٹر بھی بن چکا ہو اور اسی طرح نادرہ حکام اسپتالوں، قبرستانوں سے ہفتہ وار یا ماہانہ بنیادوں پر فہرست منگوائیں اور مرحومین کے نام کو ایک خود کار نظام کے ذریعے فہرست سے نکال دیا جائے۔
انتخابی فہرست کے بعد دوسرا منفی عنصر اس انتخاب کے حوالے سے بے یقینی کی کیفیت تھی۔ پتا نہیں کیا بات تھی کہ اس انتخاب کے بروقت انعقاد پر ابہام کے اتنے گہرے پردے تھے کہ عوام کی اکثریت کسی نامعلوم اندیشوں کا شکار تھی کہ خدا نخواستہ ملک میں کوئی ایسی بڑی دہشت گردی نہ ہوجائے جس کی وجہ سے انتخاب ملتوی کرنا پڑجائے اس لیے میں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ پچیس جولائی کی شام کو شاید ہمیں یقین آئے کہ انتخابات بر وقت ہو گئے۔ تیسرا مسئلہ انتخابی مہم کے لیے وقت کا انتہائی کم ہونا تھا کہ اس دفعہ ہر حلقے میں مردم شماری کی وجہ سے ووٹروں کی تعداد پہلے سے بہت بڑھ گئی تھی۔ گھر گھر جانا تو دور کی بات رہی کوئی بھی امیدوار اپنے حلقوں کی ہر گلی اور محلوں میں نہ جاسکا۔ ایک اور کمی جو شدت سے محسوس کی گئی وہ انتخابی ماحول کا نہ بننا اور وہ اس وجہ سے نہ بن سکا کہ اس دفعہ الیکشن کمیشن نے پبلسٹی کے قواعد و ضوابط بہت سخت کر دیے تھے۔ ایک اور منفی نکتہ الیکشن سے پہلے خوف کا ماحول تھا پھر صوبہ بلوچستان میں دہشت گردی کے دو بڑے واقعات نے خوف کے اس ماحول کو اور بڑھاوا دیا بالخصوص مستونگ کے سانحے نے پورے ملک میں ایک غم کی لہر دوڑا دی اس حادثے میں 150سے زاید بے گناہ لوگ جاں بحق ہوئے یہ پاکستان کے دشمن بیرونی عناصر کی کارروائی تھی اور پاکستان کے دشمن ممالک جن میں بھارت سر فہرست ہے کی یہ کوششیں تھیں کہ پاکستان میں الیکشن ملتوی ہو جائیں تاکہ ملک میں انارکی کی کیفیت پیدا ہو جائے۔
انتخابات کے نتائج کے بعد ایک منفی تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ ملک میں دینی جماعتوں کا صفایا کردیا گیا حالاں کہ انتخاب کا جو نتیجہ آیا نہیں بلکہ لایا گیا ہے اس میں تو منصوبہ بندی اسی بات کی گئی تھی دینی جماعتوں کو سائیڈ لائن کرنا ہے۔ اس میں کچھ غلطیاں بلکہ سنگین قسم کی غلطیاں مجلس عمل سے ہوئیں یہ بھی ایک وجہ ہے۔ ایک منفی تاثر یہ بھی دیا جارہا ہے کہ کراچی سے جماعت اسلامی کی ایم کیو ایم کے بعد متبادل سیاسی قوت کی پوزیشن ختم ہو گئی اب تحریک انصاف متبادل قوت ہے۔ اگر پچھلے تمام انتخابات میں اسی طرح کا انتظام کیا جاتا جو اس دفعہ ہوا ہے تو جماعت اسلامی پہلے ہی ایم کیو ایم کو شکست فاش دے چکی ہوتی لیکن جب تک جماعت اسلامی ایم کیو ایم کی متبادل سیاسی قوت تھی اس وقت کے ہر انتخاب میں ایم کیو ایم کو پولنگ اسٹیشن پر قبضہ کر کے نتائج کو اپنے حق میں کرنے کی کھلی چھوٹ دی گئی۔
ان تمام منفی نکات کے ساتھ 25جولائی 2018 کے انتخابات کے مثبت نکات اتنے ہی زیادہ اور مضبوط ہیں سب سے اہم بات یہ کہ بہت سارے اندیشوں اور وسوسوں کے باوجود انتخابات اپنے وقت پر ہو گئے دوسری اہم بات یہ کہ انتخاب والے دن ملک کے کسی نہ کسی حصے سے لڑائی جھگڑے ہلاک و زخمی ہونے کی خبریں پچھلے انتخابات تک آتی رہی ہیں لیکن اس مرتبہ پورا دن امن وامان سے گزر گیا یہ اس انتخاب کی خاص بات ہے۔ تیسری اہم بات کراچی کے حوالے سے ہے کہ اس دفعہ الیکشن والے دن کوئی خوف نہیں تھا ورنہ اس سے پہلے یہ ہوتا رہا ہے کہ دن کے دو بجے کے بعد آپ پولنگ اسٹیشن میں داخل نہیں ہو سکتے اپنے پولنگ ایجنٹوں کو بہ حفاظت واپس لانا ایک مسئلہ بن جاتا تھا اس دفعہ ہماری خواتین پولنگ ایجنٹس بھی رات بارہ بجے گنتی میں شامل رہیں اور بغیر کسی خوف کے وہ اپنے گھروں میں واپس آگئیں۔
اس الیکشن میں خفیہ عناصر نے جو کچھ کیا وہ اعلانیہ کیا اور کہتے ہیں کہ نتائج کہیں اور تیار کیے گئے لیکن اس شر میں سے کچھ خیر کے پہلو بھی سامنے آئے ہیں کہ پاکستانی عوام کو دو جماعتوں کی جکڑبندیوں سے آزاد کردیا گیا کراچی میں عوام نے لسانیت کے خلاف ووٹ دیا یہ کراچی کے حوالے سے ایک خوشگوار پہلو ہے کہ تحریک انصاف سے شدید اختلاف کے باوجود یہ ماننا پڑے گا وہ ایک قومی جماعت ہے او ر چاروں صوبوں میں اس کی تنظیم ہے۔ ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ ملک میں کرپشن کے حوالے انتخابی مہم چلی ہے اور لوگوں نے کرپشن کے خلاف ووٹ دیا ہے اس لیے اب امید کی جاتی ہے کہ عمران خان ملک میں کرپشن کے خلاف جہاد کا آغاز کر دیں گے۔ آخری خوش آئند بات یہ کہ ملک جمہوریت کی پٹری سے نہیں اترا۔