اور عمران خان جیت گئے

222

حصول اقتدار کے لیے عمران خان نیازی کی 22 سالہ جد وجہد کامیاب ہوگئی اور وہ پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوگئے۔ منتخب ہونے کے بعد انہوں نے اپنا موازنہ قائد اعظم سے کیا ہے کہ ان کے بعد وہ دوسرے شخص ہیں جو اپنی جد وجہد سے مسند اقتدار پر پہنچے ہیں۔ انہوں نے قائد اعظم کی مثال دی ہے تو امید کی جانی چاہیے کہ وہ ان کے کردار کو بھی مد نظر رکھیں گے جس میں کوئی جھول نہیں تھا۔ قائد اعظم کی سب سے بڑی صفت یہ تھی کہ وہ منافق نہیں تھے اور قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں تھا۔ ان کا بد ترین مخالف بھی ان پر کوئی الزام نہیں لگاسکا۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ بے مثال جد وجہد سے ملک پاکستان بنایا جسے ان کے جانشین بگاڑنے میں جت گئے۔ عمران خان کے ’’آئیڈیل‘‘ اگر قائد اعظم ہیں تو انہیں بہت سنبھل کر آگے بڑھنا ہوگا اور سب سے پہلے بڑے بڑے دعوؤں سے گریز کرنا ہوگا۔ کیونکہ مخالفین ان کو ’’یوٹرن خان‘‘ کہتے رہے ہیں۔ قرآن کریم میں انتباہ کیا گیا ہے کہ تم وہ بات کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں۔ عمران خان کا ایک دعویٰ یہ ہے کہ وزیراعظم منتخب ہوتے ہی اگلے دن گورنر ہاؤس لاہور کو مسمار کرنے کے لیے بلڈوزر باہر کھڑے ہوں گے۔ اس کے بعد گورنر ہاؤس پشاور اور نتھیا گلی کا نمبر آئے گا۔ عمران خان منتخب ہوگئے ہیں، مال روڈ لاہور پر بلڈوزروں کا انتظار رہے گا۔ بہر حال یہ حقیقت ہے کہ عمران خان کا ماضی خواہ کتنا ہی داغدار ہو لیکن ان پر مالی بد عنوانی کا الزام نہیں ہے۔ ایسا شخص ملک بھر میں ناسور کی طرح پھیلی ہوئی کرپشن دور کرسکتا ہے تاہم اس کے لیے ایک مضبوط اور صاف ستھری ٹیم بھی درکار ہوگی جو ابھی نہیں بنی ہے۔ تبدیلی لانا ایک آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔ قائد اعظم سے ایک غیر مصدقہ جملہ منسوب ہے کہ ’’میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں‘‘۔ عمران خان بھی اپنی جیب کی تلاشی لیتے رہیں۔ ایک بہت کم مالیت کا کھوٹا سکہ تو کراچی کی سڑکوں پر شہری پر تشدد کرتا ہوا نظروں میں آہی گیا ہے۔ جمعہ کو وزیراعظم کے لیے ہونے والے انتخاب میں عمران خان نے 176 اور ان کے مقابل شہباز شریف نے 96 ووٹ حاصل کیے۔ گویا 80 ووٹوں کا فرق ہے۔ یہ فرق اس لیے بھی بڑھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے شہباز شریف کو ووٹ دینے سے صاف انکار کردیا تھا۔ اس کا مطالبہ تھا کہ ن لیگ شہباز شریف کے بجائے کسی اور کو کھڑا کردے کیونکہ شہباز نے آصف زرداری کو بہت گالیاں دی ہیں، ان کا پیٹ پھاڑنے اور گلے میں رسی ڈال کر سڑکوں پر گھسیٹنے کا اعلان کیا تھا۔ ہر چند کہ یہ جلسوں کے سامعین کو خوش کرنے کے لیے بڑھکیں تھیں لیکن سیاست میں کبھی بھی اتنی دور نہیں جانا چاہیے کہ واپسی نہ ہوسکے۔ کبھی شائستگی اور تہذیب شریفوں کا شیوہ تھا۔ لیکن اس معاملے میں سیاست سے زیادہ انا کی کار فرمائی ہے جس کا اظہار دونوں طرف سے ہوا۔ جب معاملات طے کرنے کے لیے 16 جماعتوں کا اجلاس ہوا تھا اس میں فیصلہ ہوا تھا کہ اسپیکر کے لیے پیپلزپارٹی اور وزارت عظمیٰ کے لیے ن لیگ کا امیدوار ہوگا۔ چنانچہ پیپلزپارٹی نے خورشید شاہ کا نام دیا جن کے انتخاب میں ن لیگ نے ان کو ووٹ دیا۔ ن لیگ نے وزارت عظمیٰ کے لیے شہباز شریف کو نامزد کیا۔ وہ اپنی پارٹی کے صدر ہیں چنانچہ ان کی نامزدگی متوقع تھی۔ ایک خبر کے مطابق پیپلزپارٹی نے بھی ان کے نام پر اتفاق کیا تھا لیکن 16 جماعتوں کے مذکورہ اجلاس میں بلاول زرداری اور ان کے والد آصف زرداری شریک نہیں ہوئے تاکہ اعتراض کرنے کی گنجائش برقرار رہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ نیت پہلے سے خراب تھی۔ پیپلزپارٹی کا کہناہے کہ شہباز شریف نے کبھی خود پاس آکر آصف زرداری سے ووٹ کی درخواست نہیں کی۔ بقول آصف زرداری، میں تو اپنی جگہ بیٹھا ہوا تھا، شہباز شریف پاس ہی نہیں آئے۔ یعنی دونوں طرف سے جھوٹی انا کا ٹکراؤ تھا۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے وزارت عظمیٰ کے انتخاب میں حصہ نہیں لیا اس طرح بالواسطہ طور پر تحریک انصاف سے بھرپور تعاون کا مظاہرہ کیا۔ دونوں جماعتوں میں سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب کے موقع پر بھی تعاون کا مظاہرہ ہوچکا ہے اور آئندہ بھی یہ تعاون جاری رہنے کا امکان ہے۔ پیپلزپارٹی کے صدر نشین بلاول زرداری نے بڑے جوش و خروش سے کہاتھا کہ میں دکھاؤں گا اپوزیشن کیسے کی جاتی ہے، ڈٹ کر مقابلہ کروں گا۔ لیکن جو سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ ڈٹ کر اپوزیشن مسلم لیگ ن کے خلاف کی گئی ہے۔ بلاول زرداری نے بھی اسمبلی میں خطاب کیا لیکن کرپشن کے خلاف کچھ کہنے کی ہمت نہیں کی۔ پہلا خطاب نو منتخب وزیراعظم عمران خان نے کیا لیکن یہ ایک وزیراعظم کا نہیں بلکہ تحریک انصاف کے جلسے سے چیئرمین کا خطاب تھا۔ انہوں نے شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن کو چیلنج کیا کہ ہم نے تو 126 دن کا دھرنا دیا تھا وہ ایک ماہ کا دھرنا دے کر دکھادیں، کنٹینرز اور دیگر سہولتیں حکومت فراہم کرے گی۔ باقی وہی پرانی باتیں تھیں کہ ہم نے چار حلقے کھولنے کی بات کی تھی جس کے لیے عدالتوں کے چکر کاٹتے رہے اور ڈھائی سال لگے۔ یہ دھاندلی کرنے والوں کے لیے اشارہ تھا کہ وہ بھی ڈھائی سال گزاریں۔ اسمبلی سے شہباز شریف نے بھی خطاب کیا لیکن وہ یہ سمجھتے رہے کہ وہ ن لیگ کے جلسے سے خطاب کررہے ہیں۔ اسپیکر کے بار بار شکریہ کہنے یعنی تقریر ختم کرنے کے اشارے کے باوجود وہ بولتے رہے اور عمران خان تسبیح پھیرتے رہے۔ بلاول نے اچھا کیا کہ انگریزی میں خطاب کیا جو سمجھ میں آیا ہو یا نہیں لیکن اردو میں بولتے تو لطیفے ہوتے۔ شور شرابا تو روایت ہے چنانچہ ہوتا رہا۔ بہر حال عمران خان کو مبارک ہو کہ انہیں وعدے پورے کرنے کا موقع مل گیا۔