اصغر خان نہیں عمران خان

346

عارف بہار

عمران خان کے بائیس سالہ سفر کو آخر کار منزل گئی۔ جمعہ کو انہیں وزیر اعظم منتخب کر لیا گیا۔ عمران خان کا بائیس سالہ سفر مذاق میں شروع ہوا تھا اور جمے جمائے دو جماعتی نظام نے ان کی سیاست اور نعروں کو ہر ممکن حد تک مذاق بنانے کی کوشش کی تھی۔ ان کی ناکامی کے استعارے کے طور انہیں ایک اور ’’اصغر خان‘‘ کہا جاتا رہا۔ اصغر خان پاکستانی سیاست کا کوئی برا نام اور کردار نہیں تھے کہ جن کے دامن پر بدعنوانی کا کوئی داغ ہو۔ کرپشن اور کمیشن کی کوئی داستان ہو۔ پاکستانی سیاست میں وہ ایک اُجلے کردار کے حامل بہادر مگر اڑیل سیاست دان گزرے تھے جنہیں ذوالفقار علی بھٹو کے مقابلے میں متبادل قیادت کے طور پر اُبھارا گیا تھا۔ ائر مارشل اصغر خان کا المیہ یہ ہوا کہ وہ اقتدار کی منزل سے چند گام کی دوری پر تھے کہ ملک میں مارشل لا لگ گیا اور انتخابات کی منزل دور ہوتی چلی گئی۔ بدلتی ہوئی زمینی حقیقتوں میں اصغر خان کی مقبولیت اور قسمت کا چاند گہناتا چلا گیا یہاں تک اقتدار کی منزل تو دور ہو ہی گئی تھی مگر پارٹی کے مرغان بادنما جو اقتدار کی خاطر ان کے گرد جمع تھے ایک ایک کرکے راستے بدلتے چلے گئے۔
ائر مارشل اصغر خان سے ملاقات کا وقت لینے کے لیے تڑپنے والے، ان کے نعرے بلند کرنے والے سیاسی کارکن ان کی زندگی میں اقتدار کے جھولوں میں جھولتے رہے مگر اصغر خان ایبٹ آباد اور اسلام آباد کی سیر گاہوں اور نجی محفلوں تک محدود ہو کر رہ گئے۔ عمران خان کو جب اصغر خان کا طعنہ دیا جاتا تھا تو اس میں اسی انجام کی پیش گوئی مضمر ہوتی تھی۔ لوگوں کا خیال تھا کہ عمران خان کی ضد، جذباتی پن اور فیصلے بدلنے کی روش انہیں اس سفر کے آخری مرحلے میں اسٹیبلشمنٹ کے لیے ناقابل قبول بنادے گی اور یوں وہ اقتدار کی منزل سے تھوڑی سی دوری پر ہی ہمیشہ کے لیے دور ہوجائیں گے۔ یہ سوچ ان کے سیاسی مخالفین ہی میں نہیں ملک میں دانشور طبقے تک میں بھی گہری ہو چکی تھی۔ عمران خان قسمت کے دھنی اور آہنی اعصاب کے حامل شخص ثابت ہوئے۔ ان کی مضبوط اعصابی نے انہیں ہر قسم کے حالات میں کھڑا رہنے کا حوصلہ دیا۔ گو کہ ان کی سیاسی معاونت اور حکمت کاری میں کئی دوسرے عوامل وعناصر کا حصہ بھی ہے مگر پاکستان کی سیاست میں اقتدار تک پہنچنے والاہر سیاست دان زندگی کے کسی نہ کسی دور میں اس حکمت کاری اور معاونت سے فیضیاب ہوتا رہا ہے۔ ملک کی ہئیت مقتدرہ میں موجود یہ عناصر کسی زیرو کو ہیرو نہیں بناسکتے۔ اگر کسی شخص اور جماعت میں قدرتی پوٹینشل اور مقبول ہوجانے کی صلاحیت موجود ہو تو یہ عوامل اور عناصر کامیابی سے اپنا کردار ادا کرتے ہیں بصورت دیگر سب تدبیریں اُلٹی ہو کر رہ جاتی ہیں۔ عمران خان اور ہئیت مقتدرہ میں کا تعلق نظریہ ضرورت پر مبنی تھا۔
دوجماعتی نظام کا سحر توڑنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان کی مقبولیت سے فائدہ اُٹھانے کی سہولت میسر آئی تو اس کے بدلے عمران خان کو بلاشبہ سیاسی فائدہ بھی حاصل ہوتا رہا۔ نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کی بھاری بھرکم سیاسی شخصیات کے مقابلے میں میدان میں اترنا اور تادیر جمے رہنا آسان کام نہیں تھا۔ عمران خان اگر حالات سے مایوس ہو کر سیاست کا بھاری پتھر چوم کر چھوڑجاتے تو اس میں نہ تو کوئی اچنبھا ہوتا اور نہ دنیا کی کوئی طاقت انہیں زور زبردستی کے ساتھ سیاسی میدان میں کھڑا رکھ سکتی تھی۔ سیاست میں زندہ رہنے کے لیے ان پر جتنے وسائل استعمال ہوئے اس سے کئی گنا زیادہ وسائل انہیں اقتدار تک پہنچنے سے روکنے کے لیے صرف ہوئے اور اسی کا کمال تھا کہ سال ڈیڑھ سال میں رنگ برنگے اسکینڈلوں نے ان کا تعاقب شروع کر دیا تھا۔ وہ ایک کہانی سے دامن چھڑاتے تو دوسری شروع ہوجاتی۔ عمران خان نے بائیس سال کے سیاسی سفر میں خود کو مسٹر کلین، نوجوانوں میں مقبول اور جرات اظہار کا حامل انتھک سیاست دان ثابت کرکے کامیابی اور معاونت کے باقی اسباب سے فائدہ اُٹھایا اور یوں وہ اصغر خان کے بجائے عمران خان ثابت ہوئے۔
عمران خان کی سیاسی کامیابی یہ تھی کہ انہوں نے سیاست سے لاتعلق نوجوان طبقے کو سیاست میں سرگرم کیا۔ پاکستان میں پے در پے لگنے والے مارشل لاؤں نے ملک کو ڈی پولٹی سائز کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مارشل لا چوں کہ آمرانہ اور شخصی نظام ہوتا ہے اس لیے اس نظام کی خواہش اور عافیت اسی میں ہوتی ہے کہ لوگ سیاست سے توبہ تائب کر کے کولہو کے بیل کی طرح اپنی ذات میں گھومتے رہیں۔ انہیں ملکی مسائل اور معاملات سے، جمہوریت اور سیاسی شخصیات سے کوئی سروکار نہ رہے۔ اقتدار اور اختیار الگ دنیا کی بات ہو اور مخلوق خدا پنی قسمت اور حالات کے جزیرے میں مقید اور سرگرداں رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے جس عام آدمی کو سیاست میں متحرک کیا تھا جنرل ضیاء الحق کے طویل مارشل لا نے اسے دوبارہ خواب آورگولیاں دے کرسیاست اور سسٹم سے لاتعلقی کی راہ پر ڈال دیا تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ دوری اور بیگانگی بڑھتی چلی گئی تھی۔ پاکستان میں بھی شخصی حکومت نے یہ کلچر پیدا کیا جس سے عام آدمی کو سیاست سے گھن آنے لگی۔ نوجوان طبقہ سیاست سے قطعی مایوس اور لاتعلق ہو کر رہ گیا۔ عمران خان اس نوجوان طبقے کو جن میں لڑکے ہی نہیں ماڈرن اور تعلیم یافتہ بچیاں بھی شامل تھیں سیاست کے خارزار میں لے آئے۔ انہوں نے اپنی شخصیت کے گلیمر میں انہیں اپنے گرد جمع کیے رکھا۔ یہی طبقہ عوام میں ان کا ہارڈ کور اور نیوکلیس ثابت ہوا۔ بعد میں اسی نیوکلیس کے گرد الیکٹ ایبلز کے نام سے طاقتور جاگیر دار، مخدوم اور سرمایہ دار جمع ہوئے جنہوں نے عمران خان کے اقتدار کی منزل کو آسان بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اپنے بائیس سالہ سیاسی سفر میں عمران خان ایک جنگجو ثابت ہوئے۔ بہرحال اب وہ اپنی آزاد روی، سخت رویوں، خوابوں اور وعدوں سمیت وزیر اعظم کی کرسی کی نذر ہیں اور یہ کرسی ان کے حوالے ہے۔ اب ان کے اقدامات، فیصلے اور ان فیصلوں کے اثرات ہی تاریخ میں ان کے مقام کا تعین کریں گے بس اس کے لیے تھوڑا انتظار درکار ہے۔