کے ایم سی ، حکومت کی منظوری کے بغیر 13 اعلی افسران کے تبادلے و تعیناتی

121

کراچی ( رپورٹ : محمد انور ) بلدیہ عظمٰی کراچی نے منتخب حکومت سندھ کے چارج سنبھالنے سے قبل اپنے 13 اعلی افسران کے تبادلے و تقرریاں کردیں۔ اس مقصد کے لیے سیکرٹری بلدیات سے اجازت بھی نہیں لی گئی۔ تبادلہ کیے جانے والے افسران میں ڈائریکٹر ویٹرنیری ڈاکٹر ایس ایم فاروق بھی شامل ہیں جو محکمہ ویٹرنیری کے امور بہتر بنانے کے ساتھ ان معاملات میں ڈی ایم سی غربی اور ملیر کی خلاف ضابطہ مداخلت پر مزاحمت کررہے تھے تاکہ بلدیہ کراچی کی آمدنی متاثر نہ ہوسکے۔سرکاری ذرائع نے بتایا ہے کہ میئر وسیم اختر کی ہدایت پر ہنگامی بنیادوں پر جن افسران کے تبادلے و تعیناتی کی گئی ان میں گریڈ 20 ریحان خان ، گریڈ 19 کے ڈاکٹر ایس ایم فاروق ، گریڈ 19 کے جمیل فاروقی ایڈووکیٹ، گریڈ 19 عبدالجبار بھٹی ، گریڈ 18 کے شمس الدین ، ایس یو جی سروس کے گریڈ 18 کے نایاب سعید ، نیاز احمد ہنگورو اور دیگر شامل ہیں۔ احکامات کے مطابق ڈائریکٹر ویٹرنیٹری کی اسامی سے ڈاکٹر ایس ایم فاروق کو فارغ کرکے انہیں انسانوں اور جانوروں کی صحت سے متعلق ٹیکنیکل نوعیت کی اسامی پر وکیل جمیل فاروقی کو متعین کردیا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ ڈاکٹر ایس ایم فاروق چونکہ سلاٹر ہاؤس کی مقبوضہ 752 ایکڑ اراضی کو واہ گزار کرانے کے لیے اقدامات کے ساتھ مویشی منڈیوں میں ہونے والی خلاف ضابطہ کارروائیوں کو روکنے کے لیے قانونی مزاحمت کررہے تھے اس لیے انہیں ہٹادیا گیا اور ویٹرنیٹری کے امور سے نابلد افسر جمیل فاروقی ایڈووکیٹ کو تعینات کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔آرڈر کے مطابق سینئر ڈائریکٹر فنانس و اکاؤنٹس ریحان خان کا تبادلہ کرکے سینئر ڈائریکٹر اسپورٹس و کلچرل کی اسامی پر تعینات کردیا گیا۔جہاں سے خورشید شاہ کو فارغ کیا گیا ہے۔ جبکہ ڈائریکٹر پنشن عبدالجبار بھٹی کو سینئر ڈائریکٹر فنانس و اکاؤنٹس کی اضافی ذمے داری دیدی ہے۔ محکمہ انجینئرنگ کے ڈائریکٹر اکاؤنٹس نایاب سعید کا تبادلہ کرکے ان کی جگہ نیاز احمد ہنگورو کو مقرر کردیا گیا جبکہ نایاب سعید کو ڈائریکٹر اکاوئنٹس میونسپل یوٹیلیٹی چارجز ٹیکس لگادیا گیا۔ محکمہ ایم یو سی ٹی سے ڈائریکٹر محمد ارشد اور ڈپٹی ڈائریکٹر اکاؤنٹس نسیم احمد کو ہٹادیا گیا۔ محکمہ ایچ آر ایم کے ایڈیشنل ڈائریکٹر عادل فاروقی کو محکمہ فنانس و اکاؤنٹس کے ڈپٹی ڈائریکٹر کی اسامی کا اضافی چارج بھی دیدیا گیا۔ کے ایم سی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک درجن سے زائد افسران اپنی تعیناتی کے منتظر ہونے کے باوجود من پسند افسران کو اضافی ذمے داریاں سونپ دی گئیں۔ جس کی وجہ سے کے ایم سی کی مجموعی کارکردگی مزید خراب ہونے کا امکان ہے۔