گستاخانہ خاکے اور امت مسلمہ

316

ہالینڈ میں گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کے اعلان کے بعد سے امت مسلمہ کے حکمرانوں کی جانب سے کوئی ٹھوس اور مضبوط موقف سامنے نہیں آیا ہے بلکہ عوامی سطح پر احتجاج اور مظاہرے ہو رہے ہیں یا پھر سندھ اسمبلی میں جماعت اسلامی کے رکن سید عبدالرشید اور پنجاب اسمبلی میں عمار یاسر نے اس حوالے سے آواز اٹھائی۔ پنجاب اسمبلی اس اعتبار سے بازی لے گئی کہ وہاں قرار داد مذمت منظور کرلی گئی سندھ میں یہ کام اب تک نہیں ہوا۔ اتوار کے روز ملک بھر میں مذہبی جماعتوں اور سماجی تنظیموں نے ہالینڈ میں گستاخانہ خاکوں کے مقابلوں کی اطلاع پر شدید احتجاج کیا اور مظاہروں اور ریلیوں میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ عالم اسلام کو اس حوالے سے یکجا کرے۔ پیر کے روز پاکستانی دفتر خارجہ نے اس حوالے سے ہالینڈ سے احتجاج کیا ہے اور معاملہ اقوام متحدہ لے جانے کا اعلان کیا ہے اور وزیر خارجہ شاہ محمودقریشی نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور او آئی سی کو بھی خط لکھ دیا ہے۔ اب جبکہ وزیر اعظم عمران خان پاکستان کو مدینہ جیسی اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا منصوبہ روبہ عمل لانے کی پوزیشن میں آچکے ہیں اس کا پہلا مرحلہ ساری دنیاکے حکمرانوں کو اسلام کی دعوت دینے والے خطوط سے شروع ہوتا ہے۔ ہالینڈ میں توہین آمیز خاکوں کے مقابلے کے حوالے سے اسلام کی دعوت اور رواداری کے پیغام کو پھیلانے کا یہ موقع انہیں ملا ہے۔ محض احتجاج اور غم و غصے کے اظہار والے پیغام کے بجائے اسلام کے اصل پیغام کی طرف توجہ دلائیں کہ اسلام تمام انبیاء کی ناموس کا محافظ ہے خواہ حضرت عیسیٰ ؑ ہوں یا حضرت موسیٰ ؑ ، یعقوب ؑ اور دیگر انبیاء اور عالم غرب اور یورپ و دیگر ممالک کو یہ بتایا جائے کہ ہمارے نزدیک ہر پیغمبر کا احترام اور ان کا مقام بلند ہے ہم کسی پیغمبر کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کرسکتے۔ فوری طور پر او آئی سی کا اجلاس طلب کر کے تمام ممالک کو یہ پیغام دیا جائے تو اس کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔