پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ اقوام متحدہ نے کشمیر کے متنازع خطے پر تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔ اس رپورٹ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ مسئلہ کشمیر تشدد کے سلسلے کو بند کرکے معنی خیز مذاکرات کے عمل سے حل کیا جاسکتا ہے۔ رپورٹ پر کشمیر کے لوگوں اور انسانی حقوق کے اداروں نے اطمینان کا اظہار کیا ہے لیکن بھارتی حکومت ’’میں نہ مانوں‘‘ والی روش پر قائم ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ نے اس رپورٹ کو ’’جھوٹ کا پلندہ‘‘ قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔ رپورٹ میں بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں 2016ء میں مظاہرین کے خلاف استعمال کیا جانے والا سب سے مہلک ہتھیار ’’پیلٹ گن‘‘ کو قرار دیا گیا۔ حالاں کہ بھارتی فوج وہاں ہر طرح کے ہتھیار استعمال کرتی رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں آزاد کشمیر کے بارے میں بھی لکھا گیا ہے کہ وہاں کی مقامی انتظامیہ پر وفاقی حکمرانوں کا قبضہ ہے اور احمدیہ فرقے سے تعلق رکھنے والے کشمیریوں کو توہین مذہب کی آڑ میں ہراساں کیا جارہا ہے۔ پاکستان کے وزارت خارجہ نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے خدشات کو کسی طرح بھی انڈیا کے زیر قبضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم اور انسانی حقوق کی پامالی کے برابر نہیں کہا جاسکتا۔
آج کل مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کو اقلیت میں بدلنے کی سازش کے خلاف احتجاج زوروں پر ہے۔ بھارتی آئین میں 35 اے کی منسوخی کے لیے بی جے پی کوششوں میں لگی ہے، اس آرٹیکل کے تحت کشمیر کو بھارت میں خصوصی درجہ حاصل ہے، یعنی کشمیرکی وادی میں کشمیری ہی جائداد خریدنے اور ورثے میں منتقل کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ کشمیریوں کا موقف ہے کہ بھارت کی سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ بھی اس آرٹیکل کو منسوخ نہیں کرسکتی۔ اگر آئین کو چھیڑا گیا تو مزاحمت کی نئی لہر جنم لے گی۔ کشمیریوں کو اس معاملے میں خدشہ ہے کہ ارب پتی بھارتی سرمایہ دار مقبوضہ کشمیر میں فلسطین کے مغربی کنارے کی طرز پر آباد کاروں کی بستی بسالیں گے اور مقامی کشمیریوں کو قبر کی جگہ بھی نہیں ملے گی، یہی وجہ ہے کہ مقبوضہ وادی سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں حکومت پاکستان کو فوری طور پر اقوام متحدہ اور تمام بین الاقوامی فورموں پر آواز بلند کرنا چاہیے۔ نئی حکومت اس سلسلے میں لائحہ عمل بنائے، عالمی رائے عامہ کو بیدار کرے، اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دلانے کے لیے بھرپور کوششیں کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ کشمیری اس کے لیے بہت حساس ہیں، کیوں کہ انہیں خدشہ ہے کہ اگر یہ آرٹیکل منسوخ کیے گئے تو کروڑوں غیر مسلم آبادکار یہاں بس جائیں گے جو اُن کی زمینوں اور روزگار پر قابض ہوجائیں گے، یہ خدشہ کشمیر کے ہندو نواز سیاسی حلقوں میں بھی موجود ہے، لہٰذا اگست کی ابتدا میں جو ہڑتال کی گئی وہ انتہائی سخت ہڑتال تھی اور اس میں حریت پسندوں سے بڑھ کر بھارت نواز حلقے پُرجوش تھے۔
بی جے پی کا خیال یہ ہے کہ اگر اس دفعہ کو ختم کردیا گیا تو سب ٹھیک ہوجائے گا کیوں کہ بعد میں یہاں کی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب حد درجہ گھٹ جائے گا۔ بی جے پی کشمیر میں اس دفعہ کے خاتمے کے ذریعے اپنی فتح کے جھنڈے گاڑنا چاہتی ہے۔ پچھلے چار سالہ مودی کے اقتدار میں کیے گئے وعدوں کے ضمن میں کوئی کام نہیں ہوا، روزگار، ترقی، معیشت میں بہتری سب خواب خواب ہی رہے۔ لہٰذا مودی حکومت کشمیر کے معاملے میں اپنی فتح کا اظہار چاہتی ہے تا کہ انتخابی میدان میں اُسے آسانی ہو۔ 2017ء میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح انتہائی کم رہی تھی، یعنی مشکل سے سات فی صد۔ اُس کے بعد گلی کوچوں میں ہونے والے احتجاج میں طلبہ اور طالبات تو حصہ لے ہی رہے تھے، پہلی دفعہ اس احتجاج میں اسکولوں کی بچیاں بھی شریک ہوئیں، اس سے قبل اسکولوں کی بچیوں کا سیکورٹی اہلکاروں کی گاڑیوں پر پتھراؤ اور نعرے لگانے کے مناظر نہیں دیکھے گئے تھے۔ نیشنل کانفرنس کے سربراہ فاروق عبداللہ جو انڈیا کے حامی رہے ہیں کہتے ہیں کہ ’’کشمیر بھارت کے ہاتھوں سے نکل رہا ہے‘‘ پانچ لاکھ سے زیادہ سیکورٹی فورسز اور فوجی اہلکاروں کی موجودگی میں کشمیر کا بھارت کے ہاتھوں سے نکل جانا بھارت کے حمایتی سیاست دانوں کو بھی نظر آنے لگا ہے۔ اعلیٰ فوجی حکام بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ حالات انتہائی سنگین اور نازک ہیں۔ کشمیر میں ستر سال سے جاری تحریک آزادی کی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی تڑپ اس حقیقت کا کھلا اعلان ہے کہ کشمیر کے لوگ کسی صورت بھی بھارت کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مودی کی حکومت دفعہ 35 اے کو منسوخ کرکے کشمیر میں مسلمانوں کو اقلیت میں بدلنے کی پالیسی اختیار کرنا چاہتی ہے جو کشمیر میں بھارت کے حمایتیوں کو بھی منظور نہیں ہے۔