وزیر اعظم عمران خان نے اپنے پہلے خطاب میں اپنا سینہ کھول کر قوم کے سامنے رکھ دیا۔ پاکستان کو درپیش چیلنجز کی نشاندہی نہیں کی بلکہ ان مسائل کا حل تجویز بھی کیا اور حل کرنے کے عزم وارادہ کا اظہار بھی کیا۔ ان کا خطاب تعمیر پاکستان کے طویل، صبر آزما اور کٹھن سفر کا سنگ میل کہلائے جانے کے قابل ہے۔ پاکستان اپنے قیام کے اولیں مراحل ہی میں انتشار کی راہوں پر گامزن ہوگیا۔ ہر گزرنے والا دن پہلے سے بدتر ہوتا چلا گیا۔ ہر تدبیر اُلٹی ہوتی رہی اور ہر سفر ترقی معکوس کا سفر ثابت ہوتا رہا۔ ایک ہمہ جہتی زوال نے پاکستانیوں کے گھر کی راہ ہی دیکھ لی۔ زوال صرف سیاست، معیشت، تعلیم، صحت، صنعت کا ہوتا تو کوئی بات نہ تھی المیہ یہ ہوا کہ زوال کی لہریں اخلاقیات کو بھی بہاکر لی گئیں۔ قوم زوال کی گہرائیوں اور سنگینی اور اسے ٹھیک کرنے کے احساس سے عاری ہوگئی۔ اس زوال نے اقدار کو بدل دیا، رویوں کو بھی برباد کیا، سماجیات کو بھی چاٹ کھایا۔ اچھے اور برے کی تمیز ہی چھین لی۔ ملک کے معروف شاعر منیر نیازی نے اسی سفر کے بارے میں کہا تھا کہ
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
یہاں حرکت آہستہ ہوتی تو کچھ عجب نہ تھا یہاں حرکت آگے کے بجائے پیچھے کی طرف جا ری تھی۔ زوال کے اس سفر کو ٹھیک کرنے اور سمت اور رفتار کا درست تعین کرنے کا کام بھول کر ہر حکومت ایڈہاک ازم پر چل رہی تھی۔ اخلاقی بحران کے باعث اقدار کیا بدل گئیں کہ ہر چور اُچکا، قانون شکن، سماج دشمن معاشرے میں کامیاب انسان کہلانے لگا اور امانت ودیانت سے وابستہ، قانون پسند انسان نکو اور نکما کہلانے لگا۔ اس سے معاشرے میں قطع نظر صحیح یا غلط انداز کے ہر حال میں پیسہ کمانے کی دھن سوار ہوگئی۔ احساس جرم کی حس ہی ختم ہو گئی۔ تعیشات اور اصراف ہی کو سب کچھ سمجھ لیا۔ سیاست دان تو قوم کو ملتے رہے مگر کوئی مدبر اور مصلح نہ مل سکا۔ مدبر اور مصلح سیاست کے تالاب میں کودنے سے گریزاں رہے اور جو لوگ سیاست میں آئے وہ اپنی ذات اور گروہی مفاد سے اوپر اُٹھ کر سوچنے کی صلاحیت سے عاری تھے۔ آمریت کا زور شخصی حکمرانی کی بنیادیں مضبوط کرنے پر رہا اور جمہوریت آئی تو بھی جمہوری اصولوں اور مبادیات سے قطعی عاری محض چند اصطلاحات، عہدوں اور عمارتوں تک محدود رہی۔ اس سے خلق خدا کو فائدہ پہنچنے کے بجائے ایک سیاسی حکمران کلاس پیدا ہوئی۔ یہ رنگ ڈھنگ ایسی قوم کے ہرگز نہیں تھے جس کا ہر بچہ مقروض پیدا ہوتا ہے اور جس نے تادیر زندہ رہنے کا عزم کر رکھا ہو۔ ہمارے انہی قومی تضادات کی بنیاد پر اس ملک کو ناکام ریاست قراردیا جانے لگا تھا اور برسرعام یہ چہ مے گوئیاں ہونے لگی تھیں کہ ایک ناکام ریاست کے پاس ایٹمی ہتھیار برداشت نہیں کیے جا سکتے۔ ایسے میں عمران خان نے اپنی حکومت کے خدوخال واضح کیے۔
ان کے خطاب سے اندازہ ہورہا ہے کہ وہ ایک واضح مقصد اور مشن کو ذہن میں رکھ کر سیاست میں آئے ہیں یا لائے گئے ہیں۔ ان کے خطاب کی اہم بات یہ کہ ان کا ہدف، آئیڈیل بہت بلند ہے۔ ایک حکمران کے طور پر ان کی نگاہیں ریاست مدینہ کے نظام حکومت پر ہیں۔ ریاست مدینہ کی یاد اور بات محض ثواب اور ماضی کو یاد کرکے نیکی کمانے تک محدود نہیں۔ انصاف اور عدل پر مبنی ایک مکمل نظام حکومت ہے جو سماجی، معاشی اور سیاسی سمیت زندگی کے تمام شعبوں کے لیے آج بھی راہنمائی فراہم کرتا ہے اور نظام بھی فراہم کرتا ہے۔ اس نظام کے کچھ اصولوں کو مغربی جمہوریت نے اپنا کر انسانوں کے لیے بہترین معاشرے تشکیل دیے مگر یہ جن کا ورثہ تھا وہ اسے یاد ماضی اور کتابی دنیا کی بات سمجھ کر اپنے تئیں ثواب کماتے رہے۔ مدینہ کی ریاست کو ذہنوں میں بسا کر تعمیر وتشکیل کے سفر میں ایک آئیڈیل نہ سہی ایک جدید فلاحی ریاست قائم کی جا سکتی ہے۔ عمران خان کے باقی سب معاشی اور سماجی تصورات اسی تصور کے گرد گھومتے ہیں اور اس سفر میں ان کے آئیڈیل حکیم الامت علامہ اقبال ہیں۔ اقبال کے فلسفے اور فکر کو روح کی گہرائیوں میں اتارنے والا شخص اپنے مقصد، ہدف اور رول ماڈل کے حوالے سے ابہام کا شکار نہیں ہوسکتا۔ موجودہ دور اور عالمی تناظر وماحول میں ریاست مدینہ کی بات کرنا آسان کام نہیں یہ زمانے بھر کی مخالف ہواؤں کے مقابل چراغ رکھ دینے کے مترادف ہے۔ اس تصور کو بدنام کرنے کے لیے اسے پولیٹیکل اسلام کا نام دیا گیا ہے۔
عمران خان نے جس مرحلے پر ریاست مدینہ کے نظام اور اسلامی ریاست کے اصول ومبادیات کی طرف رجوع کرنے کا اعلان کیا بہت سے لوگ اس مقام پر پہنچ کر اپنا اصل چھپاتے ہیں۔ اچھے بھلے ’’میڈاِن پاکستان‘‘ اور مشرقی ماحول کے پروردہ بھولے بھالے پاکستانی بھی اس مقام پر پہنچ کر محض اس لیے بدل جاتے رہے کہ مغربی دنیا انہیں بنیاد پرست، قدامت پرست، دقیانوسی اور ترقی مخالف قرار نہ دے۔ امیج بگڑ جانے کے اس خوف نے کتنے ہی ’’میڈان پاکستان‘‘ حکمرانوں کو لبرل ازم کی بند گلیوں میں پہنچا کر چھوڑ دیا۔ بہرحال تقریر ہوگئی اب تدبیر کے کٹھن لمحات کا آغاز ہوگیا ہے۔ عمران خان کی ٹیم سے اس قوم کو کبھی کوئی توقع نہیں رہی۔ ان کے پرانے ساتھی ہوں یا نئے ہمسفر سب معاشرے میں زیادہ الگ اور ممتاز نہیں رہے اس وقت قوم کی توقعات کا محور عمران خان کی ذات، ان کا تصور ریاست و حکومت، محنتی اور انتھک پن ہے اور اب انہی کو تنی ہوئی رسی کا سفر درپیش ہے۔ عمران خان نے اس تقریر کی صورت ایک محدب عدسہ قوم کو تھمایا ہے اب باقی مدت قوم اس محدب عدسے میں ان کا عمل جانچتی اور پرکھتی رہے گی۔