حکمران کی ساحری 

407

اقبال نے کہا تھا:
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
مجلس آئین و اصلاح و رعایات و حقوق
طب مغرب میں مزے میٹھے اثر خواب آوری
گرمئ گفتار اعضائے مجالس الاماں
یہ بھی اک سرمایہ داری کی ہے جنگ زرگری
اس سراب رنگ وبو کو گلستاں سمجھا ہے تو
آہ اے ناداں! قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو
عمران خان کے قوم سے خطاب پر تبصرے سے پہلے ایک بنیادی نکتہ سمجھ لیجیے۔ نظام کے حوالے سے ہمارے یہاں دو مکاتب فکر موجود ہیں۔ ایک وہ جو موجودہ نظام پر یقین رکھتے ہیں۔ نظام کے بنیادی ڈھانچے یعنی فریم ورک، بنیادی اصولوں اور ساخت سے متفق ہی نہیں بلکہ اس پر اعتماد کرتے ہیں۔ مثلاً پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، تحریک انصاف، دینی سیاسی جماعتیں اور ان تمام جماعتوں کے ورکرز، سپورٹرز اور ووٹرز۔ یہ مکتب فکر نظام پر یقین رکھتے ہوئے تفصیلات میں اختلاف کرتا ہے اور تعریف وتنقید کے ذریعے اس کی اصلاح کی کوششوں میں مصروف رہتا ہے۔ اس مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے اصحاب کی نظر میں عمران خان کی تقریر ایک معرکۃالآرا تقریر تھی یا پھر اس میں چند غلطیاں تھیں جن کی اگر اصلاح کر لی جاتی تو تقریر سو فی صد بہتر قرار دی جاسکتی تھی۔ پاکستان کے عوام نے اس سے قبل وزرائے اعظم کی جو تقاریر سنی تھیں ان میں بھٹوز کی سنہری خدمات کا ذکر ہوتا تھا یا پھر موٹر وے، سی پیک جیسے منصوبوں کا ذکر ہوتا تھا پہلی مرتبہ کسی وزیراعظم نے قوم کو بتایا ہے کہ بطور وزیر اعظم میں سیکڑوں کاریں (جن میں انتہائی مہنگی بلٹ پروف گاڑیاں بھی ہیں) اپنے پاس رکھ سکتا ہوں، پرتعیش وزیراعظم ہاؤس میں قیام کرسکتا ہوں، پانچ سو سے زاید ملازمین سے خد مت لے سکتا ہوں، لیکن چوں کہ یہ سب کچھ قوم پر بوجھ ہے اس لیے میں صرف دو کاریں، دو ملازم رکھوں گا اور تین کمروں کے ایک چھوٹے سے گھر میں رہوں گا۔
عمران خان پہلے وزیراعظم ہیں جنہوں نے قوم کو آگاہ کیا کہ ہمارے سوا کروڑ بچے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں، 45فی صد بچے غذائی قلت کی وجہ سے دماغی اور جسمانی نشو نماکی کمی کا شکار ہیں۔ پہلی مرتبہ کسی وزیراعظم نے اسلام کی اس انداز میں تحسین کی ہے کہ مغرب کا فلاحی ریاست کا تصور اسلام سے لیا گیا ہے۔ پہلی مرتبہ کسی وزیراعظم نے بیواؤں، یتیموں، عورتوں، بچوں اور نوجوانوں کے مسائل کو اس دردمندی اور رقت قلبی سے آواز دی ہے اور حل کرنے کے لیے متعدد پروگراموں کا اعلان کیا ہے۔ اسی مکتب فکر میں ایک دوسرا طبقہ ہے جو عمران خان کی تقریر پر تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ عمران خان نے کشمیر کا ذکر نہیں کیا، ناٹو سپلائی بند کرنے کے بارے میں ایک لفظ نہیں کہا، خارجہ پالیسی جیسے اہم ایشو پر بات کرنے سے بھی گریز کیا، عمران خان کے پاس ان تمام منصوبوں پر عمل کروانے کے لیے موثر ٹیم نہیں ہے، ان کی کابینہ پرویز مشرف کی کا بینہ کا نیا ایڈیشن ہے وغیرہ وغیرہ۔ ان وجوہ کی بنا پر اس طبقے کو عمران خان کی تقریر پسند نہیں آئی۔ اگر عمران خان ان کمیوں اور کوتاہیوں پر قابو پالیں تو پھر ان کی تنقید تعریف میں بدل جائے گی۔
دوسرا طبقہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو اس نظام کی بنیادہی سے اختلاف رکھتا ہے۔ اس کے بنیادی ڈھانچے فریم ورک اور اصولوں ہی کو غلط سمجھتا ہے اور اسے بین الاقوامی لادینی نظام کا حصہ سمجھتا ہے۔ اور اقبال کی صورت میں اس نظام کی مجلس آئین واصلاح و رعایات وحقوق کو خواب آوری سے زیادہ باور کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اس آشیاں کو قفس اور چاہنے والوں کو نادان سمجھتا ہے۔ اس پورے نظام رنگ وبو کو سراب سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ وہ اس نظام کے تحت اٹھائے گئے کسی اچھے اقدام اور اصلاحاتی پیکج کی تعریف نہیں کرتا۔ ان کے سامنے آقا عالی مرتبت ختم المرسلین ؐ کا اسوہ حسنہ ہے۔ آپ ؐ نے قریش کے اچھے اقدام جیسے حاجیوں کی خدمت، وفا شعاری اور سخاوت کی کبھی تعریف نہیں کی بلکہ اس شدت سے ان پر تنقید کی کہ انہیں ادھیڑ کر رکھ دیا۔ نبی کریم ؐ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے یہ مکتب فکر مسلمانوں کی یہ جماعت اس نظام کو اکھاڑ کر نیست ونابود کرکے دوسرا نظام لانا چاہتی ہے جو اسلام اور خلافت راشدہ کا نظام ہے۔ غیر اسلامی نظام میں اچھے اقدام اس نظام کو مضبوط کرنے کا باعث ہوتے ہیں لہٰذا ایک غیراسلامی نظام میں اٹھائے گئے کسی بھی اقدام، قول و فعل کی تعریف نہیں کی جاسکتی۔
عمران خان نے اس تقریر میں انصاف کی بات کی ہے اور کہا ہے کہ چیف جسٹس صاحب سے بات کریں گے کہ وہ ایسے اقدامات کریں کہ مقدمات کا فیصلہ ایک سال کے اندر اندر ہوجائے۔ عمران خان کے نزدیک ایسا ہوجائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ لوگوں کو انصاف مل گیا جب کہ اسلام صرف شریعت کے فیصلوں کو انصاف قرار دیتا ہے۔ کفر پر مبنی قوانین کے تحت دیے گئے فیصلوں کو اسلام انصاف نہیں ظلم قرار دیتا ہے۔ انصاف کے ضمن ہی میں عمران خان نے آقا عالی مرتبت ؐ کی تاابد روشن اس حدیث کا حوالہ دیا کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کریں تو میں ان کے بھی ہاتھ کاٹ دیے جاتے۔ چور کا ہاتھ کاٹنا اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی سات حدود میں سے ایک حد ہے۔ پاکستان میں ساتوں کی ساتوں حدود معطل ہیں۔ انصاف تب ہی تمام وکمال ہوگا جب چور کا ہاتھ کاٹا جائے زانی کو سزا دی جائے اور اسلامی نظام عدل کو پورے کا پورا نافذ کیا جائے۔
عمران خان نے اپنی تقریر میں اس بات کا ذکر بھی کیا ہے کہ رسول کریم ؐ نے عرب قبائل کو اتنی ترقی دی انہیں اتنا طاقتور کردیا کہ دنیا کی تہذیب یافتہ سپر پاورز کے مقابل کھڑا کردیا۔ نبی کریم ؐ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان اقوام کے خلاف جہاد کیا تھا۔ ان اقوام سے مذاکرات نہیں کیے تھے۔ کیا عمران خان مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھارت سے جہاد کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اسی طرح کیا وہ افغان مسئلہ کے حل کے لیے ایسے اقدامات پر یقین اور ان پر عمل کرنے کے لیے تیار ہیں جن کے نتیجے میں امریکا کو افغانستان سے مکمل طور پر انخلا کرنا پڑے۔ ابتدائی اقدام کے طور پر وہ ناٹو سپلائی لائن بند کرنے کے لیے تیار ہیں۔
عمران خان نے درست کہا کہ نبی کریم ؐ نے بدر کے قیدیوں کو دس مسلمانوں کو تعلیم دینے کے عوض رہا کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس اقدام سے اسلام تعلیم کو کتنی اہمیت دیتا ہے اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اسلام میں تعلیم اسلام کی آئیڈیالوجی پر مبنی ہے۔ شفقت محمود صاحب اس سیکولر لبرل تعلیمی نظام کو اسلامی تعلیمی نظام کے قالب میں ڈھالنے کی صلاحیت اور ارادہ رکھتے ہیں۔ اس طرح کے اور بہت سے نکات بلکہ پوری تقریر کو اسلامی تعلیمات کے مقابل رکھ کر جانچا اور پرکھا جاسکتا ہے اور تقریر کے اچھے یا برے ہونے کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کے عوام اسلام یعنی خلافت راشدہ کا نظام چاہتے ہیں۔ سیکولر سیاست دانوں کو بھی اپنے سیکولر ایجنڈے کو اسلامی اصطلاحات سے مزین کرنا پڑتا ہے۔ غیر اسلامی نظام میں اٹھائے گئے کسی قول وفعل کی تعریف کرنا اس نظام کو سہارا دینا اور long term اس نظام کو طول دینے کے مماثل ہے۔ موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے کوئی بھی تقریر کوئی بھی اقدام نہ تو لوگوں کو نشاۃ ثانیہ دے سکتا ہے اور نہ ہی ان کے مسائل حل کرسکتا ہے۔ عمران خان کی تقریر کو حکمران کی ساحری قرار دیا جاسکتا ہے یا پھر ایک پاپولر تقریر اور بس۔