حج کا پیغام سب کے لیے سکون

380

مسلمانان عالم کے لیے عظیم عبادت حج کے رکن اعظم وقوف عرفات کے موقع پر امام الحج سعودی مفتی شیخ حسین بن عبدالعزیزآل شیخ نے عالم اسلام کو اس کے فرائض کی یاد دہانی کرائی ہے۔ خطبہ حج دراصل اللہ کے نبیؐ پیغمبر آخر الزماں محمدؐ کے خطبہ حج کویاد دلانے کا ذریعہ بھی ہے۔ امام الحج نے خطبہ حجتہ الوداع کا حوالہ دیا اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے احترام ، انسانیت کے لیے ہدایات ، اور زندگی کے معاملات چلانے کے طریقوں کی یاد دہانی کرائی اگرچہ ہدایات ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیے ہیں لیکن یہ حسن اتفاق ہے کہ پاکستان میں چند روز قبل نئی حکومت وجود میں آئی ہے اور اس سال خطبہ حج میں جس بات پر سب سے زیادہ زور دیا گیا وہ حکمرانوں اور طرز حکمرانی کے معاملات ہیں۔ انہوں نے خطبے میں کہا کہ سیاست اور معیشت کو دین کے مطابق ڈھالا جائے۔ حکمران اللہ کی اطاعت کریں اور برائیوں کو روکیں۔ شریعت کے مطابق زندگی گزاریں فیصلے عدل کی بنیاد پر کریں اور حرام کاموں سے دور رہیں۔ انہوں نے ساتھ میں عوام کو بھی ہدایت دی کہ وہ اپنے حکمرانوں کی اطاعت کریں۔ عام مسلمان سے لیکر تاجر، دکاندار، حکمران سب کیلیے عام حکم دہرایا گیا کہ بے ایمانی پر سخت عذاب ہوگا۔ ان باتوں کو اگر پاکستان کی نئی حکومت صرف اپنے لیے رہنمائی کا چارٹر تصور کرے اور قرآن وسنت سے رہنمائی لے تو اس کے لیے بہت ہی آسانیاں ہوں گی۔ وزیراعظم عمران خان کو اپنے مشن’’مدینے جیسی فلاحی ریاست‘‘کے قیام میں مدد ملے گی۔ پاکستان میں اب تک حکمرانوں کا رویہ اس ہدایت کے اُلٹ رہا ہے۔ یعنی وہ سیاست اور معیشت کو دین کے تابع بنانے کے بجائے، دین کو اپنی سیاست اور معیشت کا تابع بنانے میں کوشاں رہتے ہیں۔ اس کام کے لیے آئین اور قانون کی من مانی تشریح کرتے ہیں۔ پھر اپنے غلط کاموں کی توثیق پارلیمنٹ سے عددی اکثریت کی بنیاد پر کرواتے ہیں۔ پاکستان میں تو سیاست اور معیشت کو دین کے تابع کرنے کے لیے آئین بھی مکمل سرپرستی کرتا ہے دستور کا پہلا جملہ یہی ہے کہ پاکستان میں کوئی قانون قرآن وسنت کے منافی نہیں بنایا جاسکے گا۔اس پر مزید یہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے ہزاروں قوانین کے بارے میں رہنمائی بھی دی ہوئی ہے کہ وہ قرآن و سنت کے منافی ہیں یا متصادم ہیں۔ لہٰذا خطبہ حج کی مناسبت سے پاکستانی حکومت کے لیے سیاست اور معیشت کو دین کے مطابق ڈھالنا زیادہ آسان ہے ۔ کیونکہ اسے دستوری مدد بھی حاصل ہے۔ اگرچہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کا تقاضا تو یہی ہے کہ تمام قوانین اسلام کے اصولوں یعنی قرآن و سنت کے مطابق بنائے جائیں لیکن اس خطبہ حج میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ مذہب سے قطع نظر یہ ساری دنیا کے سکون کا چارٹر ہے عدل کی بنیاد پر فیصلے کرنا تو دنیا کے کسی بھی مذہب میں منع نہیں۔ برائیوں کو روکنا اور نیکی کا حکم دینا بھی کسی خاص مذہب سے تعلق نہیں رکھتا اور غرور و تکبر سے بچنا بھی اسی طرح کا حکم ہے۔لہٰذا اگر کوئی مسلمان یہ کہتاہے کہ میں بنیاد پرست نہیں یا جہادی نہیں یا کٹر ملا نہیں تو کم از کم وہ مسلمان تو ضرور ہے اور ہر مسلمان عام آدمی اور حکمران پر لازم ہے کہ نمازوں کی پابندی کرے۔ دھوکا نہ دے، غرور و تکبر نہ کرے، لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرے، آج ہم عید قرباں منارہے ہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم قربانی کی یاد منانے کے لیے جب انہوں نے اپنی عزیز ترین چیز اﷲ کی راہ میں قربان کرنے کے حکم کے اتباع میں اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے لٹادیا تھا۔ ان کی قربانی کی نیت قبول ہوئی اور حضرت اسماعیل کی جگہ مینڈھا آگیا لیکن رہتی دنیا تک ہمیں یہ سبق مل گیا کہ اﷲ کی رضا کی خاطر اپنی عزیز ترین چیز قربان کرنے کا حوصلہ پیدا کیا جائے۔ آج ہماری عزیز ترین چیز صرف بیٹے نہیں ہیں۔ ہم نے اﷲ اور رسولؐ کے احکام کے مقابلے میں اپنی معیشت اور سیاست کو زیادہ عزیز بنالیا ہے۔ اپنی پارٹی اور اس کے فیصلوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ ہمارے نزدیک اب طاقت کا مرکز بھی (نعوذباﷲ) امریکا اور چین ہیں۔ ہم زبان، رنگ، نسل اور علاقے کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ مختصر الفاظ میں ہم مسلمان عام طور پر دنیا اور جلد ملنے والی چیزوں کو عزیز رکھتے ہیں اور اﷲ کے نزدیک ان کی اہمیت سمندر سے انگلی میں لگے ہوئے اس قطرے جتنی بھی نہیں جو پانی میں ڈبوکر نکالی جانے والی انگلی میں رہ جاتا ہے۔ بس خطبہ حج کا یہی پیغام ہے کہ اگر ہم نے معیشت کو عزیز بنا رکھا ہے تو اس کو آج قربان کردیں۔ اگر ہم نے اپنی سیاست کو عزیز بنا رکھا ہے تو آج قربانی کے جانور پر چھری پھیرتے وقت اس خیال کو بھی قربان کرنے کی نیت کریں۔ اگر ہم نے اپنی زبان، نسل، علاقے یا دنیا کی حقیر خواہشات کو اﷲ کے احکامات کے مقابلے میں عزیز تر بنا رکھا ہے تو اسے قربان کردیں۔ خطبہ حج اور عید قرباں کا پیغام یہی ہے کہ جب قربانی کریں تو دنیاوی طور پر عزیز چیزوں کو بھی قربان کردیں اور جب حاجی سر کے بال اترواتا ہے اور حج نہ کرنے والے جو لوگ حاجیوں سے مناسبت کے لیے بال، ناخن وغیرہ نہیں کٹواتے اور عید کے دن قربانی کے بعد بال کٹواتے ہیں تو ان بالوں کی طرح اپنے جسم و جان کے ساتھ چمٹی ہوئی خواہشات دنیا کو بھی اتار پھینکیں۔ جس طرح جمرات کو کنکریاں ماری جاتی ہیں اپنے گھروں پر واپس آکر دنیا میں نظام پر مسلط جمرات کو اپنے عمل کی کنکری ماریں۔ ہرخاص و عام اس فلسفے پر عمل کرے تو کسی کو حکمرانوں سے مطالبے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ وہ خود انصاف کریں گے اور کسی حکمران کو عوام پر سختی کی ضرورت نہیں پڑے۔ کیونکہ عوام بھی اس فلسفے پر عمل پیرا ہوں گے۔ کہنے کو تو یہ آسان ہے لیکن ان خواہشات اور عادات کی قربانی جانور پر چھری پھرنے سے زیادہ مشکل ہے۔