نئی حکومت کو پرانی دھمکی

285

پاکستان کے بارے میں امریکا اپنی خو چھوڑنے پر آمادہ نہیں اور ماضی میں پاکستانی حکمران بھی سبک سر ہوکر امریکا کی خوشامد کرنے کی ’’وضع‘‘ پر قائم رہے۔ اب پاکستان میں نئی حکومت آئی ہے اور وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ہم جنگ میں امریکا کے حلیف نہیں البتہ امن کی کوششوں میں اس کے ساتھ ہیں۔ یہ ایک معقول بات ہے بشرطیکہ اس پر قائم رہا جائے۔ ماضی کے سول اور فوجی حکمران بڑے اصرار سے یہ کہتے رہے ہیں کہ ہم امریکا کے صف اول کے اتحادی ہیں۔ لیکن کس کام میں اتحادی؟ امریکا 17 سال سے اپنی جنگ پاکستان کے پڑوس میں لڑ رہا ہے جس کے نہایت منفی اثرات پاکستان پر پڑے ہیں اور دہشت گردی اس ملک میں پھیل گئی ہے۔ امریکا نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اتنی امداد نہیں دی جتنا پاکستان نے نقصان اٹھایا ہے اور اب تو اس پر بھی قد غن لگ گئی ہے۔ پاکستان کی سول اور فوجی قیادت تو امریکا کا اتحادی ہونے پر فخر و مباہات کا اظہار کرتی رہی لیکن امریکا نے گھاس تک نہیں ڈالی۔ اب ٹرمپ حکومت نے پاکستان کی نئی حکومت سے ’’ڈو مور‘‘ کا مطالبہ کردیا ہے۔ یہ نئی حکومت سے امریکا کا پہلا مطالبہ ہے اور اگر اس بار پاکستان کی طرف سے کوئی واضح اور مسکت جواب نہ ملا تو ماضی کی طرح یہ مطالبات بڑھتے چلے جائیں گے۔ گزشتہ منگل کو امریکا کی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے واشنگٹن کے فارن پریس سینٹر میں ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے ایک طرف تو افغانستان میں استحکام کے لیے پاکستان کے کردار کی اہمیت پر زور دیا ہے دوسری طرف یہ مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان طالبان کومذاکرات پر آمادہ کرے یا انہیں واپس افغانستان میں دھکیل دے تاکہ طالبان پاکستان میں محفوظ پناہ گاہوں کا مزہ نہ لے سکیں۔ امریکا کی اس بات کا واضح مطلب یہ ہے کہ پاکستان نے طالبان کو اپنی سرزمین پر محفوظ ٹھکانے فراہم کررکھے ہیں۔ لیکن پاکستان تو خود پاکستانی طالبان کی دہشت گردی کا نشانہ بنتا رہا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ان کے محفوظ ٹھکانے افغانستان میں ہیں جس پر گزشتہ 17 سال سے امریکا قابض ہے اور یہ سوچنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے امریکا ان کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ وہ بھرپور عسکری طاقت کے باوجود افغانستان میں چھپے ہوئے دہشت گردوں پر قابو پا سکا نہ ان کو سرحد پار کرکے پاکستان داخل ہونے سے روکنے میں کامیاب ہوا ہے۔ پاکستان سے کسی بھی قسم کا مطالبہ کرنے سے پہلے امریکا اس بات کا جواب دے کہ اس نے اب تک افغانستان میں امن و استحکام کے حصول میں کتنی کامیابی حاصل کی ہے۔ افغان مجاہدین امریکی افواج کے مقابلے میں بے وسیلہ ہیں لیکن وہ جب چاہتے ہیں افغانستان کے کسی بھی شہر پر قبضہ کرکے امریکی اور اس کی پٹھو افغان فوج کو ہزیمت سے دوچار کردیتے ہیں۔ امریکا کا پاکستان سے مطالبہ ہے کہ طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرے۔ یہ کام امریکا خود کیوں نہیں کرتا۔ افغان طالبان کا تو ایک ہی مطالبہ ہے کہ ان کے ملک پر قابض غیر ملکی فوج نکل جائے اور یہ مطالبہ بالکل بجا ہے کہ امریکا اور اس کے حواریوں کو کسی بھی قانون کے تحت ایک آزاد ملک پر قبضہ کرنے کا حق نہیں۔ اقوام متحدہ کے قوانین کی رو سے بھی قابض فوجوں سے مزاحمت اس ملک کے عوام کا حق ہے۔ امریکا اس کا جواب تو دے کہ وہ کس قانون کے تحت 17 برس سے افغانستان پر قابض ہے۔ افغانستان نہ تو امریکا کے پڑوس میں ہے اور نہ اسے افغانوں سے کسی قسم کے خطرے کا سامنا ہے۔ 11 ستمبر 2000ء میں نیویارک کے دو میناروں پر طیاروں کے پراسرار حملے میں کسی افغان کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں۔ اور اگر یہ حملہ اسامہ بن لادن کی منصوبہ بندی کی وجہ سے ہوا تو امریکا اسامہ بن لادن کو شہید کرچکا ہے۔ امریکا کے پاس افغانستان پر مسلط رہنے کا یہ جواز بھی ختم ہوگیا ہے۔ امریکی نائب وزیر خارجہ نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ نئی پاکستانی حکومت کے ساتھ مل کر چلنا چاہتے ہیں اور نئے وزیراعظم کی بھارت اور افغانستان کے ساتھ امن کی خواہش کا خیر مقدم کرتے ہیں لیکن پاکستان طالبان کے خلاف مزید اقدامات کرے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ دہشت گردی ختم کرنے کیلیے دنیا کے ساتھ کھڑے ہیں۔ لیکن کیا انہیں معلوم نہیں کہ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد تو امریکا ہے جس نے کئی ممالک میں دہشت گردی پھیلا رکھی ہے، پاک فوج کے سربراہ الحاج قمر جاوید باجوہ نے بھی دہشت گردی کے متاثرین کے بین الاقوامی دن پر کہا ہے کہ دہشت گردوں کو شکست دینے کی راہ پر کامیابی سے گامزن ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہیں یہ بھی واضح کردینا چاہیے کہ اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کون ہے۔ 26 جولائی 2018 کو عمران خان نے بیان دیا تھا کہ ’’امریکا سے ایسے متوازن تعلقات چاہتے ہیں جن سے دونوں ملکوں کو فائدہ ہو‘‘۔ بہت اچھی بات ہے لیکن امریکا کے ساتھ اتحاد ہی نے خطے کے مسلمانوں کو امن و سلامتی کے خطرے سے دوچارکیا ہوا ہے۔ امریکا خطے میں بھارت کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے کام کررہاہے اور کشمیر کے مسئلے کو دفن کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کے نئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ امریکا سے اظہار محبت کا دور گزر گیا۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے پاک امریکا تعلقات پر نظر ثانی کرنا ضروری ہے۔ امریکی دھمکیوں کے پیش نظر یہ ضروری ہوگیا ہے کہ افغانستان کے معاملات میں امریکاکی کسی قسم کی مدد نہ کی جائے۔ افغان مجاہدین بھی تو صرف اللہ کے بھروسے پر پہلے روس اور اب امریکا سے نبرد آزما ہیں۔