پاکستان کو مدینے کی طرز کی ریاست بنانے کا عزم ! 

290

عمران خان اور ان کی پارٹی 25 جولائی 2018 کے عام انتخابات میں پہلی بار ملکی سطح پر کامیاب ہوکر اقتدار میں آئی تو ’’اسٹبلشمنٹ‘‘ کے خفیہ کردار کی بازگشت جاری ہے۔ ہر طرف عمران خان کے اقتدار میں آنے کے چرچے کے ساتھ لوگ وثوق سے یہ کہتے ہوئے نظر آرہے ہیں کہ یہ کامیابی ’’خلائی مخلوق‘‘ کی مرہون منت ہے۔ اڈیالہ جیل میں قید ہونے سے پہلے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف ان کی صاحبزادی مریم نواز۔ داماد کیپٹن صفدر اور بہت سارے مسلم لیگی رہنما جنہیں خلائی مخلوق کہا کرتے تھے نجانے وہ کون تھے؟ تاہم آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور نے انتخابات کے انعقاد کے قریب ایک پریس کانفرنس میں وضاحت کی تھی کہ ’’ہم خلائی نہیں بلکہ ربّ کی مخلوق ہیں‘‘۔ آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ فوجی ترجمان کو یہ وضاحت کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی تھی؟۔
بہرحال عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی کامیابی اور کپتان عمران خان کے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد یہ یقین ہوچکا ہے کہ ملک میں پہلی بار ’’منفرد‘‘ تبدیلی آنے لگی ہے۔ جو ایک خوش آئند امر ہے۔ عمران خان کی پارٹی کی انتخابات میں واضح برتری کے بعد ان کی پہلی تقریر الیکشن مہم کے دوران کی گئی تمام تقاریر سے مختلف تھی۔ کسی نے کہا کہ یہ عمران خان کے خطاب سے زیادہ کسی ’’جرنیل‘‘ عمران خان نیازی کا خطاب لگ رہا تھا۔ مگر جیسے ہی پی ٹی آئی کے سربراہ کو قومی اسمبلی نے بھاری ووٹوں سے منتخب کیا تو عمران خان نے اسمبلی میں پہلا خطاب کرکے قوم پر واضح کردیا کہ وہ ویسے ہی سیاست دان ہیں جیسے دیگر سیاست دان۔ قومی اسمبلی میں کرپشن کے خلاف سخت اقدامات کرنے کا ترش لہجے میں ذکر کرتے ہوئے جب انہوں نے کسی کا نام لیے بغیر کرپشن میں ملوث سیاسی عناصر کو ’’ڈاکو‘‘ سے تشبیہ دی تو سب ہی کو یقین ہوگیا کہ یہ کرکٹ کے کپتان عمران خان ہی ہیں انہیں جرنیلوں سے منسوب کرنا درست نہیں ہے۔ اس تقریر سے یہ بھی شبہ ہوا کہ تبدیلی آنا مشکل ہے۔ مگر وزیر اعظم کا حلف اٹھانے کے چند گھنٹوں بعد اور اراکین کابینہ کے حلف لینے سے قبل نو منتخب وزیر اعظم عمران خان نیازی نے قوم سے جس طرح کا خطاب کیا وہ واقعی کسی بھی سابق وزیراعظم کی روایتی تقریر سے ہٹ کر تھی۔ جسے سننے کے بعد نہیں بلکہ سننے کے دوران ہی قوم کہہ اٹھی تھی کہ ’’تبدیلی آگئی ہے‘‘۔ عمران خان نے اپنے پہلے خطاب کو قوم سے گفتگو کے انداز میں پیش کرکے نہ صرف منفرد بلکہ تاریخی بھی بنایا۔
اب وہ وزیراعظم بن کر جس انداز سے فعال ہیں وہ بھی غیر معمولی ہے۔ ایک ہفتے میں کابینہ کے دو اجلاس کرنے سے ایسا لگ رہا ہے کہ عمران خان قوم کی توقعات پر کم سے کم وقت میں پورا اترنا چاہتے ہیں۔ ایسا کرکے وہ ’’اسپورٹس مین اسپرٹ‘‘ کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا حکومت کرنے کا جوش و جذبہ دیکھ کر اندازہ ہورہا ہے کہ وہ عالم اسلام ہی نہیں پوری دنیا میں اپنی حکمرانی سے پاکستان کا ’’ڈنکا‘‘ بجاکر اس پاک مملکت کو عالم اسلامی کا حقیقی مرکز بنانا چاہتے ہیں۔ اگرچہ اب تک وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کو مدینے جیسی ریاست بنانے کا عزم کیا ہے اس لیے یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ وہ نیک ارادے رکھتے ہیں۔ اپنے ارادوں کی تکمیل کے لیے انہوں نے وزیراعظم ہاؤس اور دیگر سرکاری اخراجات میں کمی اور سادگی اپنانے کا اشارہ بھی دے چکے ہیں۔
لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ عمران خان اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اسلامی تعلیمات سے رہنمائی حاصل کریں۔ اس مقصد کے لیے وہ سیاسی و مذہبی پارٹی جماعت اسلامی کے رہنماؤں کی مشاورت بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ عمران خان یہ بات تو خوب جانتے ہیں کہ جماعت اسلامی ہی ملک کی وہ واحد پارٹی ہے جس میں باقاعدگی سے انتخابات بھی ہوتے ہیں جب کہ اس سے وابستہ لوگوں کی اکثریت دیندار لوگوں پر مشتمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کے صادق و آمین ہونے کی گواہی ملک کی اعلیٰ عدلیہ دے چکی ہے۔ جماعت اسلامی ہی ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے جو انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے مشہور ’’الخدمت فاونڈیشن‘‘ کامیابی سے چلا رہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر وزیراعظم عمران خان ملک کو مدینے کی طرز کی ریاست بنانے کے لیے جماعت اسلامی کے رہنماؤں سمیت نامور دینی شخصیات سے مشاورت حاصل کریں گے تو وہ بغیر کسی تاخیر کے صرف اللہ کے دین کو پھیلانے اور اللہ کی رضا کے لیے ہر طرح کی مدد و رہنمائی کے لیے تیار ہوجائیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان اس حوالے سے کن کی رہنمائی حاصل کرنا چاہتے ہیں؟۔
رہی بات موجودہ حکومت کی تشکیل میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کی تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ ملک میں جب بھی انتخابات ہوئے اس کے ساتھ دھاندلی کی بازگشت بھی ہوئی۔ شاید اس طرح کا شور مستقبل میں بھی ہر عام انتخابات کے بعد اٹھتا ہی رہے گا۔ بہرحال پوری ذمے داری سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ 2018 کے عام انتخابات کی پولنگ کا عمل کئی لحاظ سے منفرد اور مثالی تھا۔ پولنگ کا عمل شفاف ہونے پر شک کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے ہمیشہ ہی اسی طرح پولنگ کرانے کی ضرورت ہے۔