پارلیمنٹ میں تین اچھے اضافے

304

ملک میں نئی اسمبلیاں وجود میں آگئی ہیں اور تقریباً چالیس فی صد نئے لوگ بھی اسمبلیوں میں پہنچے ہیں۔ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں پہلی تقریروں کے اعتبار سے ایک خوش آئند صورت حال سامنے آئی ہے۔ نو منتخب وزیراعظم عمران خان نے نہایت پرجوش تقریر کی وہ اس تقریر کے دوران ملک کے وزیراعظم نہیں لگ رہے تھے ان کے جواب میں جو تقریر مسلم لیگ (ن) کے سربراہ شہباز شریف نے کی اس میں وہ منجھے ہوئے سیاستدان نہیں لگ رہے تھے بلکہ ان کی اس پہلی تقریر کے جملے بھی عمران خان کی طرح مربوط نہیں تھے۔ ان کو عمران خان کی طرح کی آواز نہیں ملی ورنہ وہ بھی چیخم دھاڑ والی تقریر ہی کررہے تھے۔ لیکن قومی اسمبلی میں بہت سی باتوں پر اختلافات کے باوجود پہلی مرتبہ اسمبلی میں پہنچنے والے پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول زرداری نے جو تقریر کی وہ بلاشبہ ایک اچھی سیاسی تقریر تھی ان کے لہجے اور جملوں میں ان کے چہرے اور جسمانی حرکات کے درمیان ہم آہنگی محسوس ہورہی تھی ایک مربوط تقریر تھی۔ پیپلز پارٹی کی سیاست سے قطع نظر قومی اسمبلی کے لیے ایک اچھا اضافہ بلاول کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ اگرچہ بھٹو صاحب کے انداز میں تقریر کی کوشش کرنے والے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) جنرل پرویز، جنرل ضیا مختلف گھاٹ کا پانی پینے والے مخدوم شاہ محمود قریشی بھی اسمبلی میں موجود ہیں اور بلاشبہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے سب سے اچھے مقرر ثابت ہوں گے۔ اسی طرح سندھ اسمبلی میں ایک ہی نشست جیتنے والی جماعت اسلامی کے امیر ضلع کراچی جنوبی سید عبدالرشید نے نہایت پراعتماد انداز میں اسمبلی کے تمام ارکان اور حکومت کو مخاطب کیا، اپنے ایجنڈے پر بات کی رپورٹ کی گئی تقاریر کے حوالے دیے تنقید بھی کی اور عزائم کا اعلان بھی کیا۔ یہ سندھ اسمبلی میں نئی آواز ہے لیکن آغاز سے لگ رہا ہے کہ یہ آواز تادیر سندھ اسمبلی میں گونجے گی۔ سب سے اہم اضافہ پنجاب میں ہوا ہے۔ توقع تھی کہ پی ٹی آئی کی کامیابی کے بعد حمزہ شہباز مشتعل ہوں گے اور دھاندلی کا شور مچائیں گے۔ انہوں نے اس کا شکوہ بھی کیا لیکن بہت عمدہ انداز میں تقریر کی اور اپنی طویل تقریر میں اپنی پارٹی کی شکست کے بارے میں بھی بات کی۔ دھاندلی کا الزام بھی دہرایا، اپنے بارے میں بہت سی باتیں کیں۔ مسلم لیگ (ن) کے ترقیاتی کاموں کا حوالہ دیا اور مستقبل کے عزائم کا حوالہ بھی دیا۔ یہ تقریر بھی نہایت پراعتماد اور اچھی تھی۔
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ یہ تقریروں کی تعریف پر کیوں اتر آیا ہے۔ مسئلہ تقریروں کا نہیں ہے ان تقریروں سے یہ اندازہ ہورہا ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ میں مستقبل میں کس قسم کے لوگ بات کریں گے۔ عمران خان اور شہباز شریف تو اب پرانے لوگوں میں شمار ہوں گے۔ عمران خان نے یوں بھی اسمبلی میں بہت کم وقت گزارا ہے اب بحیثیت قائد ایوان کتنا وقت دیں گے اس کا انحصار ان کی مصروفیات بلکہ انہیں مصروف کرنے والوں پر ہے۔ توقع یہی ہے کہ وہ میاں نواز شریف سے زیادہ دن حاضری دیں گے۔ اسمبلیوں میں تقریر سے زیادہ دستور اور قوانین سے واقفیت کی اہمیت ہوتی ہے لیکن اگر یہی بات اچھے انداز میں متوازن الفاظ کے ساتھ ترتیب میں کہی جائے تو اس سے سنے والوں پر بھی اچھے اثرات پڑتے ہیں اور بات سمجھانا بھی آسان ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو حمزہ شہباز اول، بلاول زرداری دوسرے اور سید عبدالرشید تیسرے نمبر پر ہیں۔ بلاول کو تو بڑے جلسوں اور بڑے اجلاسوں سے خطاب کا بھی تجربہ رہا ہے لیکن حمزہ شہباز نے اتنے بڑے ایوان سے بطور قائد حزب اختلاف پہلی مرتبہ خطاب کیا ہے جب کہ ان کے بقول کچھ دیر قبل ہی ان کا مینڈیٹ چوری کیا گیا تھا۔ ہماری رائے ہے کہ مستقبل میں بھی یہ لوگ اسی انداز میں دلائل کے ساتھ بات کریں گے۔ یہ لوگ جتنا چیخیں گے جتنا اچھل کود کریں گے الیکٹرونک میڈیا کو اسی قدر منجن بیچنے کا موقع ملے گا۔ وہ تو کچھ دیر ریٹنگ کے چکر میں ان کا تماشا دکھادیں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس نے اس میڈیا پر انحصار کیا وہ اس طرح گرائے گا جس طرح اٹھاتا ہے۔ تیسرا اضافہ سید عبدالرشید ہیں، ہمارے خیال میں سید عبدالرشید بلاول اور حمزہ کے مقابلے میں بڑے ادارے کے تربیت یافتہ ہیں۔ یہ بات محض تبصرے کے طور پر نہیں کہی جارہی بلکہ یہ حقیقت ہے کہ اتنی عمدہ پرفارمنس دینے والے بلاول اور حمزہ پیدائش سے لے کر اب تک سونے کا چمچہ ہی منہ میں لیے ہوئے ہیں ان کو ہمیشہ سازگار ماحول ملا ہے لیکن یہ محدود دائرے میں رہے ہیں۔ سید عبدالرشید نے جس ادارے میں تربیت پائی ہے وہ کراچی سے لے کر چترال تک کشمیر سے لے کر بلوچستان کے دور دراز علاقوں تک جنوبی شمالی پنجاب بالائی پنجاب کے پی کے چپے چپے میں کام کرتا ہے۔ وہ اسلامی جمعیت طلبہ ہے جس کا ناظم اعلیٰ کبھی ڈیرہ غازی خان میں ہوتا ہے تو کبھی شیخوپورہ اور لاہور میں کبھی اسلام آباد میں تو کبھی کشمیر میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ کی مختصر سی ٹیم شدید مخالفت والے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اپنے ناظم اعلیٰ کے لیے اسٹیج تیار کرتی ہے اور یہی جمعیت جامعات کے حوالے سے تحریکوں میں اپنے ناظم اعلیٰ کو تمام طلبہ تنظیموں کا قائد بناتی ہے۔ سید عبدالرشید کے بجائے ہم سندھ اسمبلی کو مبارک باد دیتے ہیں کہ اسے ایسا سپوت ملا۔