وفاقی کابینہ کے مستحسن فیصلے

237

وفاقی کابینہ نے گزشتہ جمعہ کو اپنے اجلاس میں کئی اہم فیصلے کیے ہیں جن کا مرکز و محور سرکاری اخراجات میں بچت کرنا ہے۔ پاکستان کی دگرگوں اقتصادی صورت حال کے پیش نظر سب سے پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ کھربوں روپے کے اندرونی اور بیرونی قرضوں میں گھرے ہوئے ملک کے حکمرانوں ہی کیا سب ہی کو تعیش، اللّے تللّے خرچ کرنے اور پیسہ ضائع کرنے سے بچنے کی ضرورت ہے۔ قرآن کریم میں ’’لاتسرفو‘‘ یعنی فضول خرچی سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے کہ فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں ۔ پاکستانی حکمرانوں پر سرسری سی نظر ڈالی جائے تو سب شیطان کے بھائی ہی نظر آئیں گے۔ خلفائے راشدون کی پیروی کرنے کی توقعات رکھنا تو عبث ہے لیکن قوم کے حکمران قوم کے پیسے کو اپنی عیاشی پر خرچ نہ کریں، اس کی توقعات تو کی جاسکتی ہیں۔ عوام اپنے حکمرانوں کی راہ پر چلتے ہیں ۔ چنانچہ سب سے پہلے ضروری ہے کہ حکمران اپنی عیاشیاں ختم کر کے حتی الامکان سادگی اختیار کریں اور عوام کے لیے مثال قائم کریں ۔ وزیر اعظم عمران خان کی صدارت میں کابینہ کے مذکورہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ حکمرانوں کے صوابدیدی فنڈز ختم کیے جارہے ہیں۔ ان میں ارکان پارلیمنٹ بھی شامل ہیں۔ حکمرانوں کی فرسٹ کلاس میں فضائی سفر کی سہولت بھی ختم کردی گئی ہے۔ عمران خان بھی خصوصی طیارہ استعمال نہیں کریں گے۔ وزارت کیڈ ختم کردی گئی ہے۔ جن وفاقی اداروں میں ہفتے کی چھٹی بھی ہوتی ہے وہ برقرار رہے گی تاہم سرکاری دفاتر میں اوقات کار تبدیل کردیے گئے ہیں جو صبح 9بجے سے شام 5بجے تک ہوں گے۔ یہ صبح 8بجے سے شام 4بجے تک تھے۔ لیکن اس سے کیا فرق پڑے گا ؟ 5سال میں 10ارب درخت لگانے کافیصلہ ایسا ہے جس کا اعلان عمران خان کئی برس سے کررہے ہیں اور خیبر پختونخوا میں اس پر کسی حد تک عمل بھی ہوا ہے۔ پاکستان میں شجرکاری بہت ضروری ہے اس سے موسم بھی بہتر ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی درختوں کی کٹائی پر بھی نظر رکھی جائے۔ ملک گیر صفائی مہم چلانے کے لیے ٹاسک فورس بھی قائم کردی گئی ہے۔ کابینہ میں جو فیصلے کیے گئے ہیں ان پر وزراء سے خاص طور پر عمل کرایا جائے۔ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کی ٹرین کے فرسٹ کلاس میں سفر اور احتیاطاً برابر کی نشست خالی چھوڑنے، لاہور کے ریلوے اسٹیشن کی تمام دکانیں بند کرانے اور ویٹنگ روم سے مسافروں کو نکال باہر کرنے کے مناظر ٹی وی چینلوں پر چل چکے ہیں۔ شیخ رشید خود کو عوامی شخصیت قرا ر دیتے ہیں لیکن عوام کے ساتھ سفر کرنے پر تیار نہیں ۔