مشکل سوال نہ کریں

259

 

یہ بھی کوئی بات ہے کہ عوام پریشان ہیں کہ وزیر اعظم نے عید کی نماز کہاں ادا کی‘ وہ روایتی حکمرانوں کی طرح عید کی نماز کے بعد لوگوں میں گھل مل کیوں نہیں گئے‘ چھوڑیے‘ تبدیلی آچکی ہے لہٰذا پرانے اسٹائل کے سوال نہ کیے جائیں‘ یہ پوچھ لیں کہ کیا بدلا ہے‘ اس سوال کا جواب یہی ہے کہ جنگلا بس چلتی رہے گی‘ ایک تبدیلی یہ بھی آئی ہے کہ قومی اسمبلی ہو یا ٹیلی ویژن پر خطاب‘ وزیر اعظم ابھی تک کسی اسپیچ رائٹر کے بغیر ہی تقریر کررہے ہیں‘ وزیر اعظم کی پہلی دو تقریریں ابھی تک بحث کا موضوع بنی ہوئی ہیں اب انہیں مشورہ دیا گیا کہ اسپیچ رائٹر کا تقرر بہت ضروری ہے، ایک نہیں بلکہ دو اسپیچ رائٹر چاہیے‘ ایک وزیر اعظم کے لیے جو انہیں قومی ا سمبلی کے لیے کسی اشتعال کے بغیر تقریر لکھ کر دیں دوسرا اسپیچ رائٹر وزیر خارجہ کے لیے چاہیے جو انہیں مختصر تقریر لکھ کر دے‘ بلکہ انہیں لمبی بات کرنے کے بجائے مختصر گفتگوکرنے کا فن سکھائے۔ وزیر اعظم کو جامع‘ ٹھوس‘ اور کسی اشتعال کے بغیر بات کرنا ہوتی ہے‘ یہ فن سیکھے بغیر وزیر اعظم آگے نہیں بڑھ سکتے‘ یہی نصیحت وزیر خارجہ سمیت ہر وزیر کے لیے اور ایک بہت ہی ماہر مشیر کے لیے بھی کی جارہی ہے‘ وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں جو پہلی تقریر کی‘ یہ تقریر تو محض دس منٹ میں کی جا سکتی تھی کہ اس میں بس یہی تو کہا گیا تھا ناں کہ ڈاکو چوروں کو این آر او نہیں ملے گا‘ ملک بچے گا یاکرپٹ طبقہ، یقیناًیہ ایک معنی خیز نعرہ ہے۔
نومنتخب حکومت کی پہلی ترجیحات میں تعلیم، پولیس، عدلیہ، پانی، صحت کے شعبوں میں اصلاحات لانا شامل ہے‘ عوام کو انتظار تھا کہ وزیر اعظم عمران خان ضرور اس بارے میں بات کریں گے‘وزیر اعظم نے پی ایم ہاؤس میں ایک عالی شان یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا، ملک کے گورنر ہاؤسوں، اور سرکاری افسران کی رہائش گاہوں کے لیے سوچ بچار کے بعد اقدامات سامنے لائے جائیں گے تاہم قیمتی گاڑیوں کی نیلامی کا فیصلہ ایک مستحسن بات ہے۔ اگرچہ اس نیلامی سے بھاری قرضے کا عشر عشیر بھی جمع نہیں ہو سکتا مگر اس خطاب کے بعد بھی یہ سوال باقی ہے کہ حکومت کی ترجیحات کیا ہیں گزارش یہ ہے کہ عمران کان اب کنٹینر پر نہیں کھڑے بلکہ ملک کے وزیر اعظم ہیں‘ اب وہ حکومت میں ہیں اور مسائل کا ذکر کرکے عوام کو مطمئن نہیں کر سکتے، نہ ان مسائل کے لیے ماضی کی حکومتوں کو مطعون کرنے میں عوام کا کوئی بھلا ہے۔ مسائل کا ذمے دار کون ہے، ان سے عوام کا کیا واسطہ، وہ چاہتے ہیں کہ ان کے مسائل حل کیے جائیں‘ تحریک انصاف کو پہلے سو دنوں میں بہت کچھ کرنا ہے‘ یہ ہدف مشتعل ہوکر‘ ماضی کی حکومت کو طعنے دے کر حاصل نہیں کیا جاسکتا‘ جنوبی پنجاب کو صوبہ بناکر اسے وڈیروں کے حوالے کرنا ہے تو اس کے بھی اپنے اثرات ہیں‘ وڈیروں اور جاگیر داروں کو اس بات کی کبھی کوئی پروا ہوئی ہے کہ عوام کے معیار زندگی بلند کیا جائے‘ ابھی تک تو یہی دیکھا گیا ہے کہ ہر وزیر دوڑ میں شریک ہے کہ وہ کوئی بڑا اعلان کرے‘ وہی ٹی وی پر آئے‘ وزیر خارجہ کی بریفنگ ختم ہوتی ہے تو وزیر اطلاعات کی پریس کانفرنس شروع ہوجاتی ہے‘ حکومت نے اعلان کیا کہ سرکاری ٹی وی پر سنسر شپ ختم کردی ہے‘ وزراء کی پریس کانفرنس ختم ہوگی تو اپوزیشن کو وقت ملے گا ناں۔
ہمیں وزیر اعظم سے بہت امیدیں ہیں‘ وہ باربار بائیں سال کی سیاسی جدو جہد کا ذکر کرتے ہیں لیکن ان کے کتنے ساتھی ہیں جو آج کابینہ میں شامل ہیں اور وہ ان بائیس سال کے ساتھی ہیں؟ تحریک انصاف کی بائیس سالہ جدوجہد ان کے چند ماہ اور چند سال کے ساتھیوں کے ہاتھوں میں ہے اور تبدیلی بھی یہی لائیں گے یہ لوگ جتنی لاسکے اتنی قبول کرلی جائے تو بہتر ہوگا۔ تبدیلی کے لیے نیت چاہیے‘ دیانت داری چاہیے ان کے ذریعے تبدیلی یہی ہے کہ جنگلا بس یوں ہی چلتی رہے گی روٹی کپڑا اور مکان کا خوشنما نعرہ صرف پاکستان ہی میں لگ سکتا ہے اور میٹرو بس اور اورنج ٹرین جیسے کھلونوں سے صرف پاکستانی عوام کا دل ہی بہلایا جا سکتا ہے۔
پریشانی یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے مسائل کے تعین اور ان کے حل کے لیے اقتدار میں آنے کے بعد کام شروع کیا ہے پنجاب کی نگران حکومت تحریک انصاف کا ہراول دستہ بنی ہوئی تھی اس نے جو اقدامات کیے، انہیں بدترین انتقامی کارروائی ہی سمجھا جائے گا۔ قوم کو عمران خان سے بے پناہ توقعات ہیں امید رکھنی چاہیے کہ وہ مایوس نہیں کریں گے۔ باتیں تو سب حکمران ہی اچھی اچھی کرتے ہیں جب تک اچھا عمل سامنے نہیں آئے گا ملک میں تبدیلی محسوس نہیں ہوگی۔ انہوں نے قوم کو 100دن کا ایجنڈا دیا تھا ہم 200 دن تک عمران خان کے اقدامات سے تبدیلی کے آثار کا انتظار کریں گے۔ ہماری یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ عمران خان نے اگر قوم کو مایوس کیا تو یہ بدقسمتی ہوگی۔ یہ بات لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ جنوبی پنجاب کا صوبہ بنا تو وہاں عام آدمی نہیں سردار اور وڈیرے ہی حکومت میں آئیں گے ملک میں تبدیلی کے خواہاں ہمارے نزدیک چاہے کچھ بھی کرلیں اس وقت تک تبدیلی نہیں آئے گی جب تک کنواں پاک نہیں ہوتا۔ توقع ہے عمران خان کی حکومت اس بات کی فکر کرے گی جب مریم نواز جیل سے باہر ہوں گی‘ حمزہ ان کے ساتھ ہوگا‘ تب مرکز اور پنجاب میں تحریک انصاف کی صلاحیتوں کا پتا چلے گا تب تک مزے کرلیں۔ سب سے مشکل سوال یہ ہے کہ کون ہے جو بتائے گا کہ میا نوالی کی نشست سے قومی اسمبلی کے لیے رکن منتخب ہوجانے کے بعد کیوں یہ سرکاری حکم جاری ہوا کہ وزیر اعظم عمران خان کا نام عمران احمد خان نیازی نہ لکھا جائے‘ اس نام میں کوئی قباحت نہیں تھی‘ اس مشیر کو ضرور ڈھونڈنا چاہیے جس نے یہ مشورہ دیا۔