یوم تاسیس جماعت اسلامی۔۔۔ ایک یاد دہانی

262

اب سے 77 برس قبل مجدد، محقق اور صدیوں پر محیط علمی کارناموں کے خالق سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے جماعت اسلامی کے نام سے ایک جماعت قائم کی تھی۔ 75 افراد کو پورے ہندوستان کے طول و عرض سے جمع کیا تھا اس تحریک کے قیام کا مقصد تحریکوں یا تنظیموں میں ایک تنظیم کا اضافہ نہیں تھا بلکہ سید صاحب نے اسلام کے احیا اور مکمل ضابطہ حیات کے طور پر نافذ کرنے کے لیے یہ جماعت قائم کی تھی۔ 26 اگست کو اس جماعت کا 78 واں یوم تاسیس منایا گیا۔ اس کا مقصد بھی یاد دہانی تھا لیکن یاد دہانی کے لیے اس حوالے سے سید مودودی کا اپنا فرمان بھی ہے،’’ جماعت اسلامی جس غرض کے لیے قائم ہوئی ہے وہ ایک اور صرف ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ دنیا میں اللہ کے دین کو پوری طرح سے پوری زندگی میں نافذ کیا جائے۔ اس کے سوا اس جماعت کا اور کوئی مقصد یا نصب العین نہیں ہے جو شخص بھی اس جماعت سے وابستہ ہے، خواہ رکن کی حیثیت سے یا کارکن کی اور متفق کی حیثیت سے اسے یہ بات کبھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ جماعت اسلامی کا اصل مقصد دین حق کو مکمل طور پر خدا کی زمین پر غالب کرنا ہے۔ اگر ہم سیاسی کام بھی کرتے ہیں تو اقتدار حاصل کرنے یا دوسری اغراض کے لیے نہیں کرتے بلکہ اس غرض کے لیے کرتے ہیں کہ ان رکاوٹوں کو دور کیا جائے جو دین حق کے قیام میں مسائع ہیں۔ اور جمہوری ذرائع سے ملک کے اندر اسلامی انقلاب برپا کرنے کا راستہ ہموار ہوسکے‘‘۔ جس طرح یوم تاسیس نئے عزم و حوصلے اور یاد دہانی کے لیے منایا جاتا ہے اسی طرح یہ تحریر بھی سید صاحب کی فکر کی یاد دلانے کے لیے یہاں پیش کی گئی اور ان بحثوں میں شریک حضرات بھی اس جانب توجہ دیں کہ جماعت اسلامی اول روز سے جو بھی کچھ کررہی ہے وہ اس مشن کا حصہ ہے۔ کبھی انتخابی سیاست ہوگی کبھی اتحادی کبھی کسی کو حلیف بنایا جائے گا کبھی اس کی مخالفت بھی ہوگی۔ ہر کام کا مقصد ایک ہی ہوگا۔ ہر بات پر جماعت اسلامی کے کارکن اور ارکان منتشر الخیال نہ ہوجایا کریں۔ یکسوئی جیسی نعمت چھن جائے تو بڑی بڑی تحریکیں راستہ بھٹک جاتی ہیں اور مملکتیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ سید مودودی جو کام کر گئے وہ ان کے حصے کا تھا۔ اب ان کے پیروکاروں کو باقی کام کرنا ہے اس مشن پر چلنا ہے اور دین کو زندگی کے ہر شعبے میں غالب کرنا ہے اور اس کے لیے سب سے پہلے خود کو دین کا تابع بنانا ہے۔ اور دین کا تابع بننے کے لیے قرآن و سنت کا علم حاصل کرناہے۔ اس کے بغیر دین کا سپاہی بے کار ہے۔