جنابِ عمران خان وزیراعظم منتخب ہوچکے ہیں اور اب یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ سب کو اسے تسلیم کرنا ہوگا، ان انتخابات کے حُسن وقبح پر بحث ہوتی رہے گی اور ماضی میں بھی یہ روایت رہی ہے، لازم ہے کہ حزبِ اقتدار واختلاف اسے تسلیم کر کے آگے کا سفر شروع کریں۔ وزیرِ اعظم کے انتخاب کے موقع پر قومی اسمبلی کا تاثر سنجیدہ اور پروقار نہیں تھا، بلکہ ایوان موچی دروازے کا منظر پیش کر رہا تھا۔ جنابِ عمران خان نے حزبِ اختلاف کے ہاتھوں ٹرِپ ہوکر جذباتی تقریرکر ڈالی۔ قومی رہنما کو نہ جذبات کی رو میں بہنا چاہیے اور نہ مغلوب الغضب ہونا چاہیے۔ قومی رہنما کو تحمّل، وقار ومتانت اور عزیمت واستقامت کا پیکر ہونا چاہیے۔ جنابِ عمران خان کا ہمیشہ ایک اِدّعا رہا ہے کہ وہ اپنے حریفوں سے ٹکرانا جانتے ہیں، کبھی شکست قبول نہیں کرتے، آخری بال تک فائٹ کرتے ہیں، کھیل کے میدان میں یہ اچھا وصف ہے، لیکن قیادت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد پوری قوم کو ساتھ لے کر چلنا اور سب کا اعتماد حاصل کرنا ہی قیادت کا امتیازی وصف ہوتا ہے، اب ان کو سیاسی معرکۂ آرائی موقوف کرکے اپنی پوری توجہ ملک وملّت کی تعمیرِ نو اور قومی مسائل کے حل پر مرکوز کرنی چاہیے۔
وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے ایک گھنٹے سے زاید خطاب کیا، اُن کا یہ خطاب فی البدیہہ تھا، صرف انہوں نے موضوعات کے حوالے سے نوٹس بنا رکھے تھے، اُن کا تاثّر بھی اچھا تھا، لگتا تھا کہ وہ دل کی گہرائی اور پورے یقین کے ساتھ گفتگو کر رہے ہیں۔ اُن کے خطاب کے مشمولات پر حرف زنی کی گنجائش نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کے مخالفین نے اُن کے خطاب پر جو گرفت کی ہے، وہ اس حوالے سے ہے کہ بعض اہم موضوعات کو نظر انداز کردیا گیا ہے اور قوم کو مشکلات سے نکالنے کے لیے کوئی لائحہ عمل نہیں دیا، لبرل حضرات کے لیے تو ویسے بھی اسلام کا کوئی حوالہ سوہانِ روح ہوتا ہے۔ احتساب اور تنقید حزبِ اختلاف کا حق ہے اور اگر وہ یہ نہ کریں تو اُن کا جواز باقی نہیں رہتا۔ جنابِ وزیر اعظم نے اپنے لیے اُسوہ اور قُدوہ یعنی آئیڈیل اور رول ماڈل عہدِ رسالت مآب ؐ اور عہدِ خلافتِ راشدہ کو قرار دیا ہے، یہ اُن کا حوصلہ ہے، ورنہ شیخ محمود نے کہا ہے: ’’چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک‘‘۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کر ڈالا کہ پاکستان میں کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں رہے گا، رسول اللہ ؐ نے تو اسے علاماتِ قیامت کے طور پر بیان کیا ہے کہ یا تو مال کی کثرت ہوگی اور اس کی طرف رغبت نہیں رہے گی یا انسان ایسی مشکلات میں گرفتار ہوگا کہ مال جیسی محبوب چیز قابل توجہ نہیں رہے گی، واللہ اعلم بالصواب۔ مشورہ یہی ہے کہ اتنے بلند بانگ دعوے نہیں کرنے چاہییں۔
ہمارے لوگ اپنے قائدین سے کوئی بڑی امیدیں وابستہ نہیں کرتے، چھوٹی چھوٹی طفل تسلیوں پر خوش ہوکر نعرے لگا دیتے ہیں، یہ کام ہمارے واعظین اس سے بھی بدرجہا بہتر انداز میں کرلیتے ہیں، سحرِ خطابت سے لوگوں کو عرش پہ پہنچا دیتے ہیں، پھر جب خطابت کا سیلِ رواں تھمتا ہے اور وہ گھر کی طرف رواں ہوتے ہیں تو دامن میں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ پس جنابِ وزیرِ اعظم کے خطاب کی بڑے پیمانے پر تحسین کا سبب یہ ہے کہ اس میں کم از کم کوئی قابلِ گرفت بات نہیں تھی، البتہ اہلِ دانش کے لیے ہمیشہ کچھ نہ کچھ کہنے کی گنجائش رہتی ہے، کیوں کہ: ’’جائے استاد خالی است‘‘۔
ہم اقتصادی بدحالی کی فضا میں جنابِ وزیرِ اعظم کی نیک خواہشات، اُمنگوں اور قوم میں اعتماد پیدا کرنے کی روش کی تحسین کرتے ہیں۔ لیکن ہمیں ان کو عہدِ رسالت مآب ؐ اور عہدِ خلافتِ راشدہ کا مظہر تسلیم کرنے میں تامّل ہے، تردُّد ہے اور کسی قسم کی خوش فہمی نہیں ہے۔ یہ پاکیزہ نفوس انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد تاریخِ انسانیت کا سب سے عظیم اثاثہ تھے،خاتم النبیین سیدنا محمد رسول اللہ ؐ کے براہِ راست تربیت یافتہ تھے۔ ہم اُس مقدس اور پاکیزہ دور سے تقابل کر کے جنابِ عمران خان کو ملامت نہیں کریں گے، اس میں زمین وآسمان کا فرق ہے، بُعد المشرقین ہے، کوئی تناسب ہی نہیں ہے کہ جانچنے اور تقابل کرنے کی جسارت کی جائے۔ ہم جنابِ عمران خان کا تقابل اس منصب پر فائز اُن کے پیش روؤں سے کریں گے، ستّر سال سے زیادہ پیچھے نہیں جائیں گے، زیادہ سے زیادہ شہیدِ ملت لیاقت علی خان تک جائیں گے، میڈیا نے قوم کے نام اُن کے خطاب کے کلپس اور شارٹس یقیناًمحفوظ کرلیے ہوں گے اور وہ اپنے شعار کے مطابق وقتاً فوقتاً اُن کویہ آئینہ دکھاتے رہیں گے، کیوں کہ لوگوں کو اپنی ٹیلی ویژن اسکرین کے ساتھ جوڑے رکھنے کے لیے یہ ان کی ضرورت ہے۔
ہمارا سیاسی جماعتوں سے گِلہ یہی ہے کہ وہ اقتدار کی دوڑ میں تو دیوانہ وار شریک ہوتے ہیں، لیکن نظامِ حکومت کو چلانے اور معیشت کی گاڑی کو ترقی کے ٹریک پر رواں دواں رکھنے کے لیے نہ وہ ہوم ورک کرتے ہیں، نہ کوئی روڈ میپ تیار ہوتا ہے اورنہ انہیں ملکی مسائل کی سنگینی کا صحیح ادراک ہوتا ہے، اس لیے وہ ٹامک ٹوئیاں مارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اُن کی مثال اُس شخص کی سی ہوتی ہے جو اچانک گہری نیند سے بیدار ہو اور ایک غیر متوقع منظر اُس کی نگاہوں کے سامنے آجائے، پس وہ حیرت میں ڈوب کر آنکھیں ملتا ہوا رہ جائے۔ ہماری سیاسی جماعتوں کی اس بے عملی اور کسل مندی کا نتیجہ ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد مختلف شعبوں کے لیے ٹاسک فورسز بنانی پڑ رہی ہیں، حالاں کہ جناب عمران خان کو خیبر پختون خوا میں حکومت چلانے کا پانچ سالہ تجربہ تھا اور انہیں وفاق اور پورے ملک کا اقتدار سنبھالنے کے لیے ضروری ہوم ورک پہلے سے کرنا چاہیے تھے، ان کے پاس ماضی کی حکومتوں کی غلطیوں کی اصلاح اور نئی سمت کے تعیّن کے لیے عملی خاکہ تیار ہونا چاہیے تھا۔
جنابِ وزیر اعظم نے نظام میں سادگی اور کفایت کی روِش کو اپنانے کے لیے کچھ علامتی اقدامات کا اعلان کیا ہے تاکہ لوگوں کو تبدیلی کا احساس ہو اور نظمِ اجتماعی میں کچھ نہ کچھ تو نیا نظر آئے، یہ اقدامات قابلِ ستائش ہیں۔ مگر ملک کا اقتصادی بحران گمبھیر ہے، ان سطحی اقدامات سے ہم بحران سے نہیں نکل پائیں گے، اس کے لیے حقیقت پسندی اور عملیت پر مبنی دیرپا پالیسی بنانی ہوگی۔ یہ ملک ہم سب کا ہے، میں پہلے بھی لکھتا رہا ہوں کہ وقت کے صاحبِ اقتدار کو دشمن نہیں سمجھنا چاہیے، یہ غلطی ماضی میں جنابِ عمران خان بھی کرتے آئے ہیں، لیکن اب انہیں اپنی اور دوسروں کی غلطیوں کو دہرانے کے بجائے اُن سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ لازم ہے کہ عالمی حالات، وطنِ عزیز کے گِرد وپیش کی صورتِ حال، مسلم ممالک اور امتِ مسلمہ کی بے بسی، داخلی سلامتی، دفاعی حساسیت اور اقتصادی مسائل کا ادراک کرتے ہوئے حزبِ اقتدار واختلاف متفقہ طور پر کم از کم دس سالہ روڈ میپ تیار کریں اوراس کے لیے بلا امتیازِ اقتدار واختلاف ملک میں موجود سیاسی واقتصادی دانش سے بہتر طور پر استفادہ کرکے اُسے ملک کے بہترین مفاد میں استعمال کریں۔ ہماری رائے میں جنابِ عمران خان کو اپنے پہلے خطاب میں یہ پیشکش کرنی چاہیے تھی، اس کے لیے انہیں اپنے سیاسی مخالفین کے پاس چل کر بھی جانا پڑے تو دریغ نہیں کرنا چاہیے، یہ روش اُن کی خود اعتمادی اور بڑے پن کا مظہر ہوتی، اگر حزبِ اختلاف کی جماعتیں اُن کی اس پیش رفت کا مثبت جواب نہ دیتیں تو قوم انہیں ذمے دار گردانتی، اب بھی سب کچھ ہاتھ سے نہیں گیا۔
سِول انتظامیہ کو آہنی گرفت میں لینا یقیناًوقت کی ضرورت ہے، بے لاگ جزا وسزا اور احتساب کا بھی شفاف نظام قائم ہونا چاہیے، لیکن دہشت کی فضا طاری نہیں ہونی چاہیے۔ جناب چیف جسٹس کے اقدامات سے پہلے ہی سول بیوروکریسی کے ذمے داران پر خوف کی کیفیت طاری ہے، اس سے نظام جمود کا شکار ہوجاتا ہے، لوگ فیصلہ کرنے سے کتراتے ہیں، بیوروکریسی کے پاس قدم قدم پر روڑے اٹکانے اور فائلوں پر سرخ فیتے کے نقش جمانے کے سو حربے ہوتے ہیں، تبدیلی کی علَم بردار قیادت کو تیز رفتاری سے اقدامات کرنے ہوتے ہیں، اس کے لیے رولز آف بزنس میں قانون سازی کے ذریعے بہتری لانی ہوگی تاکہ اچھے کام سرعتِ رفتار سے جاری رہ سکیں۔ حُسنِ ظن سے کام لیتے ہوئے میں یہ رائے قائم کرسکتا ہوں کہ جنابِ شہباز شریف کو چوں کہ کام میں تیز رفتاری مقصود تھی، اس لیے انہوں نے سُرخ فیتے کی رکاوٹوں سے بچنے کے لیے سرکاری شعبے میں کمپنیاں قائم کیں، اُن کے بورڈز آف گورنر بنائے تاکہ جلد فیصلے ہوں۔ آج اُن کا یہی اقدام اُن کے پاؤں کی بیڑی اور گلے کا طوق بن چکا ہے، اگر وہ باقاعدہ قانون سازی کر کے یہ اقدام کرتے تو شاید انہیں یہ مشکل پیش نہ آتی اور نہ آئے دن نیب میں پیشی کی ذلت اٹھانی پڑتی، پس لازم ہے کہ قوانین کو سہل اور قابلِ عمل بنایا جائے۔ نیز یہ بھی مشورہ ہے کہ پچھلی حکومت نے عوامی مفاد کی جو اسکیمیں شروع کر رکھی تھیں، انہیں پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے، اُن کو روکنا اُن پر خرچ شدہ وسائل کا ضیاع ہوگا۔
مخالفین اور بعض نقّاد حضرات نے عمران خان کی کابینہ کے چناؤ پر بھی گرفت کی ہے کہ سب پرانے چہرے ہیں، کیسی تبدیلی اور کون سی تبدیلی، اس معاملے میں انہیں معذور سمجھا جائے،کیوں کہ اُن کے پاس بھی دستیاب سیاسی اثاثہ یہی ہے اور انہی میں سے چھان پھٹک کرکے چناؤ کرنا پڑتا ہے، کوثر وتسنیم میں دھلے ہوئے ایسے پاکیزہ نفوس کہاں سے ملیں گے، جن کا ماضی شفاف، بے داغ اور قابلِ ستائش ہو، لوگ دیکھتے ہی اُن پر اعتماد کربیٹھیں، کراچی کے ایک عالم اپنی تقریر میں کہا کرتے تھے: ’’جس کی دُم اٹھاؤ وہی مادین نکلتا ہے‘‘۔ میں صاحبزادہ ڈاکٹر نورالحق قادری کے وزیرِ مذہبی امور مقرر کرنے پر جنابِ عمران خان اور خود صاحبزادہ نورالحق قادری کو تہِ دل سے مبارک باد پیش کرتا ہوں، وہ صاحبِ علم ہیں، شریعت وطریقت کا سلسلہ اُن کے خاندان میں چلا آرہا ہے، وہ پی ایچ ڈی ہیں، سابق وفاقی وزیر ہیں، تمام دینی مکاتبِ فکر کے رہنماؤں کے ساتھ اُن کا ہمیشہ باہمی احترام کا تعلق قائم رہا ہے، وہ وضع دار آدمی ہیں، میری رائے میں پوری اسمبلی میں اس منصب کے لیے وہ بہترین انتخاب ہیں، میں اُن کی کامیابی کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا گو ہوں۔