جام کمال کی اچھی طرز حکمرانی کا عہد

310

 

 

کہتے ہیں کہ کبھی شر سے بھی خیر برآمد ہوجاتا ہے۔ جام کمال خان عالیانی کے صوبے کا وزیراعلیٰ بننے کو اسی تناظر میں دیکھتا ہوں۔ بڑے سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، اگرچہ مقتدرہ کی چادر اُوڑھے ہوئے ہیں لیکن ان کی شہرت اچھے انسان اور سیاست دان کی ہے۔ اچھی صفات کے حامل ہیں۔ 2013ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن بنے اور میاں نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں پٹرولیم و قدرتی وسائل کے وزیر مملکت رہے۔ اس وزارت میں بد عنوانی اور دوسرے خلاف قانون اعمال و افعال سے خود کو محفوظ رکھا۔ مذہبی رجحان رکھتے ہیں بلکہ مذہبی آدمی ہیں۔ تبلیغی جماعت سے وابست رہے ہیں۔ نماز کے اوقات میں خود نماز کی امامت کراتے ہیں۔ ایسا پہلی مرتبہ دیکھا گیا ہے کہ صوبے کا ایک وزیراعلیٰ نماز باجماعت پڑھاتا ہے۔ جام کمال کو چاہیے کہ وہ کبھی کبھار جمعہ اور عیدین کے اجتماع سے خطاب کیا کریں اور نماز یں بھی پڑھائیں۔ تاریخ میں مسلم حکمران نمازوں کی امامت کراتے رہے ہیں۔ جام کمال تعلیم یافتہ اور جوان ہیں اور انہیں دین و مذہب کی معلومات بھی ہیں چناں چہ انہیں ایسا ضرور کرنا چاہیے، یقیناًیہ بڑی اچھی روایت ہوگی۔ اب جبکہ ان کے کاندھوں پر بار حکومت آچکا ہے تو انہیں بڑے عزم، تدبر اور دیانت کے ساتھ صوبے کے وسیع تر مفاد کو اپنا نصب العین بنانا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے لازم ہے کہ اپنا اختیار اور اقتدار عوام اور صوبے کی بہتری اور اچھے مستقبل کی خاطر بروئے کار لائیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ ایک آزاد فکر، دور اندیش اور مقصد و اہداف رکھنے والا سیاست دان و حکمران اپنے اختیارات کے استعمال میں آزاد ہوتا ہے۔
جام کمال نے وزارت اعلیٰ کی کرسی پر بیٹھنے کے ساتھ ہی جو پالیسی بیان دیا وہ قابل تعریف ہے۔ لہٰذا ان کو وقتاً فوقتاً جائزہ لینا چاہیے کہ وہ کہاں تک پالیسیوں پر عملدرآمد کرانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ بیوروکریسی میں سیاسی پسند و ناپسند کی بنیادپر تبادلوں پر پابندی عائد کریں۔ محنتی ودیانتدار افسران کی حوصلہ افزائی کی جائے اور کلیدی عہدوں پر ایماندار افسر ان لا کر مثالی ٹیم تشکیل دی جائے۔ سچی بات ہے کہ جام کے پاس اہل اور صاف دامن لوگوں کی ٹیم نہیں ہے۔ ان کے گرد ابن الوقتوں، سیاسی تخریب کاروں اور اَشرارکی کمی نہیں ہے۔ چناں چہ ان پر بھاری و دہری ذمے داریوں کا بوجھ آن پڑا ہے۔ آس پاس پر ہمہ وقت نگاہ ہونی چاہیے۔ کسی دباؤ کو قبول نہ کریں اور نہ جزوی و سطحی امور پر اپنا وقت اور صلاحتیں صرف کریں۔ بلکہ صوبے کے ان بڑے مسائل کے حل کو ترجیح میں رکھیں جن سے مفاد عامہ وابستہ ہو اور صوبے کی ترقی برسر زمین دکھائی دینی چاہیے۔ یقیناًایسے وزیراعلیٰ اور حاکم عوام کو بار بار منصب حکمرانی پر دیکھنا چاہیں گے۔ جام کمال خان کو پچھلی حکومت کے دوران کابینہ اور نوازشریف کی جماعت سے وابستہ رہنا چاہیے تھا۔ حکومتیں مدت پوری کرتی تو اپنا راستہ جدا کرلیتے۔ کیوں کہ عہد وپیمان و کردار ایک سیاست دان کی بنیادی صفت ہو تی ہے۔
جام کمال خان کو چھ جماعتی اتحاد نے وزارت اعلیٰ کے لیے نامزد کیا۔ یہ اتحاد بلوچستان عوامی پارٹی، تحریک انصاف، اے این پی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، بی این پی عوامی اور جمہوری وطن پارٹی پر مشتمل ہے۔ خلاف توقع نواب ثناء اللہ زہری نے بھی جام کمال کو ووٹ دیا۔ باوجود اس کے کہ یہی مہرے تھے جو ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائے۔ جنہوں نے بعد میں ’’باپ‘‘ کے نام سے الگ جماعت تشکیل دی۔ نیرنگی سیاست نواب زہری کے چھوٹے بھائی میر نعمت زہری نے بھی دکھائی۔ میر نعمت زہری مسلم لیگ نواز کے سینیٹر تھے۔ آزاد حیثیت سے صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑا۔ کامیاب ہو ئے تو سینیٹ سے مستعفی ہو کرتحریک انصاف میں شامل ہو گئے۔ عبدالقدوس بزنجو اسپیکر منتخب ہوئے تو انہیں اسپیکر کی نشست پر بٹھانے والوں میں نعمت اللہ زہری بھی شامل تھے۔ عبدالقدوس بزنجو نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف محلاتی سازش کرنے والوں میں نمایاں تھے۔ عدم اعتماد کی تحریک میں جمعیت علماء اسلام ف، سردار اختر مینگل کی بی این پی شریک تھیں جن کا سر دست ہدف مخلوط حکومت میں شامل پشتونخوا میپ اور نیشنل پارٹی تھیں۔ جام کمال کی حکومت میں جے یو آئی (ایم ایم اے) اور بلوچستان نیشنل پارٹی حزب اختلاف میں بیٹھ گئیں۔ مگر پشتونخوا میپ سیاسی انتقام کے بجائے اکلوتے رکن کے ساتھ حزب اختلاف کا حصہ بن گئی۔ پشتون خوا میپ کے رکن نصراللہ زیرے نے وزارت اعلیٰ، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے لیے ووٹ بھی حزب اختلاف کے امیدواروں کو دیا۔ دیکھا جائے تو کمال ثناء اللہ زہری نے کر دکھایا یعنی جنہوں نے ان کی حکومت پر عدم اعتماد کی چھری پھیر دی تھی گویا ان ہی کی صف میں جاکر کھڑے ہوگئے۔ نواب اکبر بگٹی کے پوتے نوابزادہ گہرام بگٹی بھی حکومت کا حصہ بن گئے ہیں۔ حالاں کہ یہ خاندان سمجھتا ہے کہ نواب اکبر بگٹی کے قتل میں سابق وزیراعلیٰ جام محمد یوسف مرحوم شامل تھے۔ نوابزادہ جمیل اکبر بگٹی نے جام یوسف مر حوم کو ایف آئی آر میں نامزد بھی کیا تھا۔ کئی سال مقدمہ عدالتوں میں چلا۔ یہ مقدمہ اب گویا عدالتی سر دخانے کی نظر ہے۔ جام کمال جام یوسف کے بیٹے ہیں۔ وقت اور حالات کروٹیں بدلتے رہتے ہیں، سو یہ بھی حالات و سیاست کی کروٹ ہی ہے۔ میں اپنی حد تک سمجھتا ہوں کہ مرکز اور صوبے میں حکومت کی حمایت جمہوری وطن پارٹی کا اپنا سیاسی فیصلہ ہے۔ مگر بات اگر خلق خدا کی، کی جائے تو وہ کہتی ہے کہ ان بھائیوں یعنی شاہ زین بگٹی اور گہرام بگٹی نے دادا نواب اکبر بگٹی کے نام اور جدوجہد کا سودا کرلیا۔
حالیہ انتخابات میں دھاندلی کا شور مچا۔ امکان تھا کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں عوام کو سڑکوں پر نکال لائیں گی، لیکن جلد ہی اس غبارے سے ہوا نکل گئی۔ مولانا فضل الرحمن سیاست و جمہوریت میں مداخلت کے خلاف بجا طور پر بول پڑے ہیں، مگر پیپلز پارٹی اور ن لیگ پیچھے ہٹ گئیں۔ جماعت اسلامی اگرچہ دھاندلی کے خلاف بول رہی ہے لیکن وہ عملی احتجاج کے حوالے سے محتاط ہے۔ بلوچستان کے اندر جے یو آئی، پشتون خوا میپ سیاسی ماحول گرم کرسکتی ہیں۔ نیشنل پارٹی کا ساتھ بھی رہے گا۔ یعنی حزب اختلاف کی تمام جماعتوں کی ظاہر و باطن کی یکسوئی، رضا مندی اور فیصلے کے بغیر ملک گیر تحریک ممکن نہیں ہے۔ ویسے مولانا فضل الرحمن کو سب سے پہلے اپنے ان اراکین اسمبلی کا احتساب کرنا چاہیے، جو بلوچستان میں منتخب حکومت کے خلاف سازش میں شامل ہو گئے تھے۔ بلکہ تحریک عدم اعتماد کی مولانا فضل الرحمن نے بھی حمایت کی تھی۔ اب جب کہ انتخابات میں خود مولانا فضل الرحمن کی طبق اُلٹ گئی تو انہیں بہت کچھ یاد آیا۔ سردار اختر مینگل کی جماعت وزارت عظمیٰ، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے لیے عمران خان کو ووٹ دے چکی ہے۔ یہ حمایت ان کے چھ نکات پر عملدرآمد سے مشروط ہے جس میں اہم نکتہ لاپتا بلوچ افراد کا ہے۔ ایک سال تک تحریک انصاف کی حکومت نے ان نکات پر عملدرآمد نہ کیا تو بی این پی اس کے بعد کوئی بھی فیصلہ کرسکتی ہے۔ لاپتا افرا دکا معاملہ آسان نہیں ہے، نہ ہی بی این پی کے لیے ممکن ہے کہ وہ اپنے دعوے کے مطابق ہزاروں بلوچ افراد کی گمشدگی ثابت کرسکے۔ سیاست پر نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ بی این پی نے دراصل عمران خان کی حمایت اسٹیبلشمنٹ کی شہہ پر کی ہے۔ اور بی این پی کو جو کامیابی انتخابات میں ملی ہے وہ اس کے حصے سے بڑھ کر ہے۔ ذرا کچھ ذکر نیشنل پارٹی کی پھرتی اور تنظیمی نظم و ضبط کا بھی ہو وہ اس طرح ہے کہ ان کے ایم پی اے میر خالد لانگو نے اپنی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی حمایت کی۔ عدم اعتماد کی تحریک 9جنوری کو پیش ہونا تھی لیکن کچھ ہی دیر قبل نواب زہری مستعفی ہوگئے۔ خالد لانگو نے رواں سال مارچ میں ہونیوالے سینیٹ انتخابات میں پھر نیشنل پارٹی کو خاطر میں نہ لایا۔ چناں چہ چند ماہ بعد یعنی اگست میں پارٹی کی پالیسیوں کی خلاف ورزی پر خالد لانگو کی بنیادی رکنیت ختم کردی گئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے معاً بعد ان کی اسمبلی کی رکنیت ختم کردی جاتی تاکہ وہ سینیٹ الیکشن میں ووٹ استعمال نہ کرپاتے۔ جیسے پشتونخوامیپ نے اپنے باغی رکن اسمبلی منظور کاکڑ کے ساتھ کیا۔ یقیناًنیشنل پارٹی خوف اور مصلحت کی شکار رہی۔