شیخ رشید کا نامناسب رویہ

226

وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے ریلویز کی وزارت سنبھالتے ہی ادارے کو تیز رفتار ترقی کی راہ پر ڈالنے کی ٹھان لی لیکن بدقسمتی یہ ہوئی کہ انہوں نے پہلے مرحلے میں لاہور کا انتخاب کیا جو حال ہی میں سبکدوش ہونے والے وزیر ریلویز خواجہ سعد رفیق کا گڑھ ہے۔ انہوں نے وزارت سنبھالتے ہی کوشش یہ کی کہ اس وزارت اور اس کے افسران پر اپنا رعب و دبدبہ قائم کیا جائے لیکن معاملہ الٹا پڑ گیا۔ اس پر طرہ یہ کہ انہوں نے سرکاری اجلاس میں نازیبا زبان استعمال کی جس کی تفصیلات ادھر ادھر یعنی سوشل میڈیا پرتو آج کل بہت کچھ آرہا ہے۔ بہرحال یہ واقعہ کوئی خفیہ واقعہ نہیں ہے نئی حکومت کے لیے کئی مرتبہ وزیر رہنے والے شیخ رشید احمد نے تبدیلی کے دعویدار حکمران عمران خان کے لیے بڑا مسئلہ پیدا کردیاہے کیوں کہ یہی عمران خان شیخ رشید کو اپنا چپڑاسی بھی مقرر کرنے پر تیار نہیں تھے کجا ریلویز کی وزارت سے نواز دیا۔ شیخ صاحب کے رویے سے تنگ آ کر ریلویز کے چیف کمرشل آفیسر حنیف گل نے دو سال کی رخصت مانگ لی اور درخواست میں چیئرمین ریلویز کو لکھا ہے کہ میں اس وزیر کے ماتحت کام نہیں کرسکتا۔ حنیف گل گریڈ 20کے افسر ہیں یقیناًان کا انداز کار اس قسم کا ہوگا۔ اعلیٰ افسران سے ڈانٹ پھٹکار یا جھاڑ پڑنا بھی معمول کی بات ہے لیکن سرکاری اجلاس میں ناقابل تحریر گالیاں اورسگار پھینکنا بہرحال قابل اعتراض ہے۔ وزیر اعظم کو اس صورت حال کا نوٹس لینا چاہیے اور اپنے اس بیان کا پاس کرنا چاہیے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ شیخ رشید کو چپڑاسی بھی نہیں رکھیں گے۔ تبدیلی کے وعدے پر عمل کے لیے انہیں بڑے فیصلے کرنے ہوں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کے پاس اور لوگ بھی وزارتوں کے لیے اہل ہوں گے۔ ویسے اب تو انہوں نے اہل کی شرط کو پس پشت ڈال دیا ہے اور ایمانداری کی شرط کو آگے رکھا ہے لیکن کیا شیخ صاحب اس شرط پر بھی پورے اترتے ہیں۔؟ وزیر موصوف نے 20دسمبر تک ریلویز کو پاؤں پر کھڑا کرنے کا دعویٰ کیا ہے حالاں کہ اب تک جتنے بھی وزیر آئے انہوں نے ریلویز کا پہیہ چلانے کا دعویٰ کیاتھا۔ کیا پٹڑی کے ساتھ ساتھ پہیے بھی کرایے پر دینے کا منصوبہ ہے۔