گستاخانہ خاکے اعلان ہی کافی نہیں

383

وزیر اعظم عمران خان نے گستاخانہ خاکوں کے مقابلوں کے مسئلے کو اقوام متحدہ اور او آئی سی میں اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ اس حوالے سے پورے عالم اسلام میں شدید ردعمل پیدا ہو چکا ہے اور مختلف ممالک میں مختلف تنظیمیں اپنے اپنے انداز میں احتجاج کررہی ہیں۔ کہیں ان خاکوں کا اعلان کرنے والے کے کارٹون بنائے جارہے ہیں کسی نے اسلام آباد چلو کی کال دے دی ہے اور کسی نے احتجاجی مظاہروں اور جلسوں کا اعلان کیا ہے۔ ایسے میں حکومت کی جانب سے کسی ٹھوس اعلان کی توقع کی جارہی تھی لیکن محض اقوام متحدہ اور آئی سی میں معاملہ اٹھانے کے اعلان سے کام نہیں چلے گا۔ امت مسلمہ کا غصہ اور جوش اسی وقت کم ہوگا جب حکومت پاکستان ہالینڈ کے سفیر کو ملک بد رکردے۔ لیکن حکومت کی جانب سے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیااور محض وعدے پر بات ختم ہوگئی ہے۔ اگرچہ وعدہ بھی ایک حوصلہ افزا عمل ہے لیکن دوسری جانب ہالینڈ کا گستاخ رکن پارلیمنٹ مقابلے کرانے پر مصر ہے اور ہالینڈ کی حکومت اسے روکنے میں ناکام ہے۔ اس کا ایک ہی موقف ہے کہ یہ آزادئ اظہار ہے۔ لیکن امت مسلمہ کو جب سے سماجی میڈیا ہاتھ آیا ہے اس نے اپنا غصہ نکالنے کا طریقہ اختیار کرلیا ہے اس پر جتنی غلیظ زبان چاہیں استعمال کرلیں اب توہین رسالت پر مشتمل خاکوں کا مقابلہ کرنے والے کے کارٹون بنا بنا کر شیئر کیے جارہے ہیں جو کوئی مستحسن بات نہیں ہے۔ ہمارے نبیؐ کی یہ تعلیم نہیں ہے اس حوالے سے بات سمجھانا بھی بڑا مشکل ہے کیوں کہ یہ معاملہ ہے ہی ایسا۔ اپنے پیارے آقا ؐ سے محبت کرنے والے کوئی دلیل یا وعدہ قبول کرنے کو تیار نہیں اسی لیے ایسے مواقع پر کہا جاتا ہے کہ حکمرانوں کو فوری ایکشن لینا چاہیے۔ اگر حکمران ایکشن نہیں لیں گے تو عوامی غصہ تو کسی نہ کسی طرح نکلے گا۔ امت مسلمہ اپنے روایتی انتشار کا شکار ہے۔ پہلے تو سعودی عرب کی قیادت میں امت مسلمہ متحدہ ہو کر ایسے حملوں کا جواب دیتی تھی لیکن آج کل سعودی قیادت میں یمن پر حملے ہو رہے ہیں۔ پھر پاکستان کا نمبر تھا اور ساری اسلامی دنیا ایسے مواقع پر پاکستان کی جانب دیکھتی تھی لیکن پاکستان میں آج کل صدارتی انتخاب کے حوالے سے بڑا انتشار ہے۔ جبکہ اپوزیشن جس کومتحدہ اپوزیشن قرار دیا جارہا ہے وہ خود منتشر ہے۔ ایسے حالات میں عوامی جوش و غصہ کوئی بھی رخ اختیار کرسکتا ہے۔ وزیر اعظم نے سینیٹ میں خطاب کر کے اعلان تو کردیا ہے کہ گستاخانہ خاکوں کے مسئلے کو اقوام متحدہ میں اٹھایا جائے گا لیکن حکومت کو فوری طور پر دو تین اقدامات کرنے چاہییں۔ ایک تو یہ کہ فوری طور پر ہالینڈ کے سفیر کو ملک بدر کیا جائے کیوں کہ احتجاج کارگر نہیں ہوا اور ہالینڈ کی حکومت مقابلے روکنے میں ناکام رہی۔ اس کے بعد ہالینڈ سے تمام درآمدی آرڈر منسوخ کیے جائیں۔ اگر چہ یہ مالی اعتبار سے کم ہوں گے اور پاکستان کو اس کا ہرجانہ بھی ادا کرنا ہوگا لیکن یہ سودے منسوخ کر کے یہ پیغام دیا جانا ضروری ہے کہ پاکستانی قوم اور حکومت کو اپنے نبی ؐ کی شان میں گستاخی کسی طور قبول نہیں۔ اگرچہ آج کل کا دور سلطان عبدالحمید کے زمانے کی طرح کسی ملک پر حملہ کرنے کی دھمکی کی روایت نہیں رکھتا خصوصاً پاکستان جیسے ملک کی یہ پوزیشن نہیں ہے لیکن پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے اس کی جانب سے اگر فوری حملہ نہیں ہوسکتا تو معاشی حملہ تو کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر امریکا دہشت گردی کے نام پر کسی ملک پر چڑھ دوڑتا ہے تو ہالینڈ کے رکن پارلیمنٹ نے مقابلوں کا انعقاد کر کے جو عمل کیا ہے وہ کھلی دہشت گردی کے مترادف ہے ۔ سارے عالم اسلام کے جذبات کو مجروح کیا گیا ہے، اشتعال پھیلایا گیا ہے۔یہ مذہبی دہشت گردی نہیں تو اور کیا ہے۔ اگر حکومتیں اور عالم اسلام ایکشن نہیں لے گا تو عوام کے ہاتھ میں معاملات آئیں گے جس سے امن و امان کا مسئلہ بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ لہٰذا مسلمان حکمرانوں کے اپنے مفاد میں یہی ہے کہ جلد سخت ایکشن لیں۔