اپوزیشن کاانتشار، زرداری صاحب کی مجبوری

315

الیکشن 2018ء کا آخری معرکہ 4ستمبر کو صدارتی انتخاب کے موقع پر ہو رہا ہے۔ اس میں جوڑ توڑ، دباؤ، کھینچا تانی اور نادیدہ قوت کی کارستانی کا بھی ذکر ہور ہا ہے۔ اب صورت یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اعتزاز احسن کے نام پر اڑی ہوئی ہے۔ مسلم لیگ ن نے مولانا فضل الرحمن کا نام دے دیا ہے اور پی ٹی آئی عارف علوی کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد کرچکی ہے۔ دیکھا جائے تو جس کا نام متحدہ اپوزیشن قرار دیا گیا تھا وہ در حقیقت ایک منتشراپوزیشن بن چکی ہے۔ اس کا سبب تلاش کیا جارہا ہے۔ الزامات بھی عاید کیے جارہے ہیں لیکن اس کا آغاز پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے وزیر اعظم کے انتخاب کے وقت اپوزیشن کے امیدوار شہباز شریف کو ووٹ نہ دینے سے ہوا۔ جب یہ طے ہوگیا تھا کہ وزیر اعظم کا امیدوار مسلم لیگ سے ہوگا تو پیپلز پارٹی کو اس فیصلے کا احترام کرنا چاہیے تھا لیکن اس کی جانب سے بچگانہ اعتراض آیا کہ سابق صدر کا بچہ شہباز شریف کو ووٹ نہیں دینا چاہتا۔ اس کے بعد شہباز شریف 96 ووٹ لے کر 176 کے مقابلے میں ہار گئے حالاں کہ اگر پیپلز پارٹی بھی شہباز شریف کو ووٹ دیتی تو انہیں 150سے زیادہ ووٹ ملتے۔ پھر یہ مقابلہ یکطرفہ نہ لگتا۔ اس کے بعد جب صدارتی انتخاب کا مرحلہ آیا تو مسلم لیگ ن نے جوابی حملہ کیا۔ اسے اصولی قرار دیا جائے یا نہیں لیکن اس کا آغاز تو پیپلز پارٹی کرچکی تھی۔ اب اس قسم کا مطالبہ آیا کہ اعتزاز جیل جا کر نواز شریف سے معافی مانگیں تو انہیں ووٹ دینے پر غور کیا جائے گا۔ گو کہ یہ ایک شخص کی ذاتی رہے تھی۔ اعتزاز احسن کے بقول پرویز رشید کی بات کی کوئی اہمیت نہیں ۔ایسی صورت حال میں مسلم لیگ نے ایک معقول فیصلہ کیا کہ اپنے کسی رہنما کے بجائے ایم ایم اے کے صدر مولانا فضل الرحمن کو صدارتی امیدواربنا دیا لیکن اب میڈیا کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مولانا فضل الرحمن خود صدارتی امیدوار بن گئے ہیں ۔ بعض چینلز نے تو حد کردی۔ اسلام اور دین بیزار لوگوں نے یہ تک کہہ دیا کہ اقتدار کی خواہش نے مولانا کو صدارتی دوڑ میں شامل کردیا ہے۔ تو کیا عارف علوی اور اعتزاز احسن ایوان صدر میں نماز پڑھنے کے لیے انتخاب لڑ رہے ہیں ؟ لیکن اس میڈیا کاکیا رونا ابھی تو اس کے حوالے سے مزید رونے کی باتیں آئیں گی فی الوقت تو متحدہ اپوزیشن کے اتحاد کو نقصان پہنچانے کی بات ہو رہی ہے ۔ کہا جارہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے اتحاد کو نقصان پہنچایا۔ لیکن جب سے وزیر اعظم کا انتخابی عمل شروع ہوا اسی وقت پیپلز پارٹی کے رہنما آصف زرداری ان کی بہن فریال تالپور اور آصف زرداری کے دوستوں انور مجید اور حسین لوائی وغیرہ پر آفتیں ٹوٹ پڑی ہیں ۔ یہ آفتیں یوں ہی اتفاقیہ نہیں ٹوٹیں بلکہ ان کا ایسے موقع پر آنا اور مقدمات کا تیز ہونا بے سبب نہیں ہے۔ یہ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ شہباز شریف کو ووٹ نہ دینا آصف زرداری کی مجبوری بن گئی ہے اور اپنے لیڈر کو بچانے کے لیے پوری پارٹی نے اپوزیشن اتحاد کی ہوا نکال دی۔ سیاسی حلقے یہ تجزیہ بھی کررہے ہیں کہ اگر پی ٹی آئی کے پاس جہانگیر ترین ہیں تو پیپلز پارٹی کے پاس آصف زرداری ہیں ووٹ خریدنے کی طاقت کے حوالے سے جہانگیر ترین نوآموز بھی ہیں اور آصف زرداری کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں جبکہ ایسے مواقع پر شریف خاندان بھی بے حد فیاض ہوجاتا ہے۔ لہٰذا وزیر اعظم کے انتخاب اور صدارتی انتخاب میں اپوزیشن کا اتحاد اہم نہیں ہے بلکہ آصف زرداری صاحب کی مجبوریاں اہم ہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ تین امیدوار میدان میں ہیں لوگ موازنہ کررہے ہیں اعتزاز احسن اور عارف علوی کا۔ اور مولانا فضل الرحمن پر دوڑ میں شامل ہونے پر تنقید کررہے ہیں لیکن اگر اسی طرح صدارتی انتخاب ہوگیا تو پی ٹی آئی کے عارف علوی با آسانی صدر منتخب ہو جائیں گے۔ کسی کے صدر منتخب ہونے یا کسی کے ہار جانے کا مطلب کفرو اسلام کی جنگ نہیں۔ یہ بھی ایک سیاسی معرکہ ہے اور جو کچھ 25جولائی کو ہو چکا اس کے بعد کسی بھی نتیجے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ تمام جماعتوں کو آگے کی طرف دیکھنا چاہیے۔ ملک کو بہت سے چیلنجز درپیش ہیں ابھی عمران خان نے اقتدار ٹھیک طرح سنبھالا نہیں ہے کہ امریکی دھمکیاں بڑھ گئی ہیں ، معاشی چیلنجز الگ ہیں،عرب دنیا میں جنگیں، ایران ،افغانستان، طالبان ، داعش کے چیلنجز بھی سامنے ہیں۔ ایسے میں ایک حد تک اختلافات ہوسکتے ہیں اس کے بعد ملکی استحکام کو متاثر کرنے والے مراحل آجاتے ہیں۔ توقع یہی ہے کہ صدارتی انتخاب کے بعد اپوزیشن اتحاد کسی حد تک متحد نظر آنے لگے گا اور زرداری صاحب کی مشکلات میں کافی حد تک کمی واقع ہو جائے گی۔ گوکہ ن لیگ کے رانا ثناء اللہ کی بات بھی قابل توجہ نہیں ہوتی تاہم انہوں نے صاف کہہ دیا ہے کہ اعتزاز احسن پیپلز پارٹی کا نہیں کسی اور کا انتخاب ہیں ۔ ان کا اشارہ اسٹبلشمنٹ کی طرف تھا۔ گویا انہیں منتشر حزب اختلاف کو مزید منتشر کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔