صوابدیدی فنڈز کا خاتمہ 

286

وفاقی کابینہ نے اپنے اجلاس میں کئی دور رس اثرات کے حامل فیصلے کیے ہیں انہی میں ایک فیصلہ صدر وزیر اعظم اور ارکان اسمبلی کے صوابدیدی فنڈز کا خاتمہ ہے۔ صوابدیدی فنڈز کا اختیار جنرل ضیاء الحق کے بعد متعارف کرائی جانے والی جمہوریت کو لاحق عارضوں میں سے ایک ہے۔ 1985 میں غیر جماعتی انتخاب کے نتیجے میں قائم ہونے والی اسمبلی کو ساکھ اور عوامی توجہ ودلچسپی دینے کے لیے محمد خان جونیجو کے وزیر خزانہ ڈاکٹر محبوب الحق نے یہ اختیار متعارف کرایا تھا۔ اس وقت پیپلزپارٹی اور ایم آر ڈی جمہوری اداروں کو ڈمی اسمبلیاں کہہ رہی تھیں۔ ڈمی کی اس پھبتی سے گلو خلاصی کے لیے جہاں محمد خان جونیجو نے مارشل لا کو ایک لعنت قرار دیا حالاں کہ ابھی مارشل لا لگانے والے جنرل ضیاء الحق نہ صرف مضبوط صدر کے طور پر موجود تھے بلکہ مارشل لا بھی قائم تھا۔ اسی تسلسل میں غیر جماعتی انتخابات کی کوکھ سے جنم لینے والی حکومت نے عوامی نمائندوں کو ترقیاتی فنڈز کا اختیار دے دیا۔ محمد خان جونیجو سچ مچ کے بااختیار وزیر اعظم بننے کی طرف تیز قدموں سے دوڑتے چلے گئے۔
جنرل ضیاء الحق کی رخصتی کے امکانات اور طریقوں پر شاید بااثر ایوانوں میں غور شروع ہو گیا تھا اسی کے زیر اثر عالمی مالیاتی ادارے بھی جمہوریت کی اس کونپل کی آبیاری چاہتے تھے اس لیے وہ بھی فنڈز کے ذریعے اس ادارے پر کھل کر مہربان تھے۔ اس لیے صوابدیدی فنڈز میں آڈٹ اور حساب کتاب کا کوئی رواج ہی قائم نہ ہو سکا۔ اس اختیار نے عوامی نمائندوں کا روایتی اور جمہوری تصورِ خادم بدل کر انہیں عملی طور پر ایک حاکم اور سیاہ وسفید کے اختیار کا حامل بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ با اختیار لوگوں میں حاکمانہ اور شاہانہ خُو بو اور تمکنت پیدا ہوتی چلی گئی۔ صوابدیدی فنڈز کا کچھ حصہ تو ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہوتا ہے مگر عمومی تاثر یہی ہے کہ اس فنڈز کا بڑا حصہ سیاسی رشوت، سیاسی خدمت کے محنتانہ اور معاوضے کے طور پر جیبوں میں چلا جاتا ہے۔
پارلیمانی نظام میں عوام کے منتخب نمائندوں کا کام قانون سازی ہوتا ہے۔ قانون سازی کا عوام سے براہ راست تعلق ہوتا ہے۔ ایک غلط اور مبہم قانون عوام کی زندگیاں اجیرن بھی بنا سکتا ہے اور اور ایک اچھا قانون انہیں راحت بھی دے سکتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے عوام کو یہ بات سمجھائی ہی نہیں گئی قانون ساز اداروں اور وہاں بنائے گئے قوانین کا عام آدمی سے کس قدر گہرا تعلق ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کی تشفی کے لیے اور انہیں اپنے حکمرانوں اور منتخب نمائندوں سے جوڑے رکھنے کے لیے صوابدیدی فنڈز کو گوند کے طور پر استعمال کیا گیا۔ عوام کو اپنے گرد جمع رکھنے اور انہیں مالی طور پر اپنا دست نگر بنائے رکھنے کے لیے صوابدیدی فنڈز کے استعمال نے جمہوریت کو کمزور کیا۔ عوام کو یہ باور کرانے کی ضرورت تھی کہ جس طرح تعمیر وترقی کا ان کی زندگی سے گہرا تعلق ہے اسی طرح قانون ساز اداروں میں ہونے والے فیصلے بھی ان کی روز مرہ زندگی پر اپنے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ان کے نمائندے صوابدیدی اور ترقیاتی فنڈز نہ ہونے کے باجود بھی اہم ہیں۔ اگر عوام کو انتخابات کے وقت ہی یہ باور کرادیا جائے کہ وہ جس شخص کو ووٹ ڈالنے جارہے ہیں اس کا ترقیاتی کاموں اور نوکریوں سے قطعی کوئی تعلق نہیں بلکہ اس کا تعلق ایوان میں قانون سازی سے ہے تو عوام اپنے نمائندوں سے اس نوعیت کی توقع ہی وابستہ نہیں رکھیں گے اور وہ یہ ذہن بنا کر پولنگ بوتھ پر جائیں گے کہ انہیں قانون سازی کے لیے اپنا نمائندہ چننا ہے مگر یہ وہاں ہوتا ہے جہاں جمہوریت اور سیاسی جماعتیں عوام کی تربیت کرتی ہیں۔ ہماری جمہوریت کا پچاس فی صد سیاسی جرنیلوں نے مارشل لا نافذ کرکے تباہ کیا اور باقی پچاس فی صد کام ان سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں نے کیا جو کئی بار اقتدار میں آنے کے باجود حقیقی جمہوریت کے بجائے علامتوں سے کام چلا تی رہیں۔ حکمرانوں نے صوابدیدی فنڈز میں اضافہ کرنے کی روش اپنالی اور یہ فنڈز کرپشن، سیاسی رشوت اور اقربا پروری کی خاطر استعمال ہوتے رہے۔ قانون سازی کے لیے منتخب افراد کو گلیوں کی تعمیر ومرمت کی ذمے داری دینے سے بلدیاتی اداروں اور نظام کی اہمیت بتدریج کم ہوتی چلی گئی۔ ماضی کی کوئی بھی حکومت اس قباحت سے دامن نہ چھڑا سکی۔ چھڑاتی بھی کیوں؟ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے کون انکاری ہوتا ہے؟۔
عمران خان کی قیادت میں نو منتخب حکومت اپنے وعدوں، حالات زمانہ اور ملکی معیشت کی حالت زار کے باعث بڑے اور کڑے فیصلوں کی طرف بڑھ رہی ہے۔ انہی میں ایک فیصلہ صوابدیدی فنڈز کا خاتمہ ہے۔ یہ آسان فیصلہ نہیں بلکہ خود حکومت کے حلقوں میں اس پر بے چینی محسوس کی جا رہی ہوگی اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پی کر آنے والے پی ٹی آئی کے گھاک سیاسی لوگ اس فیصلے پر اندر سے پیچ وتاب کھا رہے ہوں گے مگر قوموں کی زندگی میں ایک مقام ایسا آتا ہے کہ جب وقتی مصلحتوں اور سیاسی مفادات سے اوپر اُٹھ کر فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔ آج کے پاکستان کا مسئلہ ہی یہ ہے یہاں کا کلچر ہی بدل گیا ہے۔ انسانوں کی اس بستی میں یہاں چمگادڑ کی طرح اُلٹا لٹکیں تو سیدھا نظر آتا ہے۔ اس کلچر کو بدلنا ہے مگر یہ کلچر اسی وقت بدلے گا جب اوپر آنے والی تبدیلی کے اثرات بتدریج گلی محلوں میں نظر آنے لگیں گے۔