اس کی حکمت اور دانش مثالی تھی

275

وہ اپنی قوم کا عظیم لیڈرتھا۔ اس کا جینا مرنا قوم کے ساتھ تھا۔ قوم کے عقیدے، روایات اور رسم ورواج کا اس سے بڑا محافظ کوئی نہیں تھا۔ ہر وہ شخصیت، مذہب اور مہم جو قوم کے آبائی عقیدے، روایات اور رسم ورواج کے خلاف اٹھتی اس کے سامنے وہ آہنی دیواربن جاتا۔ وہ بہت بہادر تھا۔ پوری قوم اس کی بہادری کی مداح تھی۔ اس کی حب الوطنی کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر تھی۔ وہ ایک عظیم فوجی جرنیل تھا۔ ہمیشہ فرنٹ لائن پر جاکر لڑتا۔ قوم کی خاطر لڑتے لڑتے اس نے جان دے دی۔ وہ ایک عظیم قوم پرست تھا۔ اپنا اور اپنی قوم کا احترام اسے تکبر کی حد تک عزیز تھا۔ جب قتل کرنے کے لیے دشمن نے اس کے سینے پر پاؤں رکھا تو اس نے کہا ’’میرے سینے سے اتر جا کیوں کہ تونے ایک بہت بلند اور برتر مقام پر اپنا پاؤں رکھا ہے۔‘‘ اپنا قتل یقینی دیکھا تو اس نے جس آخری خواہش کا اظہارکیا وہ بھی بڑی عجیب تھی۔ اس نے کہا ’’اچھا اگر تم نے مجھے قتل کرنے کا ارادہ کرلیا ہے تو میرا سر کاندھوں سے کاٹنا کیوں کہ میں سردار ہوں، دوسروں سے بڑا ہوں اس لیے ضروری ہے کہ میری گردن لمبی ہو اور میں دوسروں سے ممتاز نظر آؤں۔‘‘ جھگڑوں کے تصفیے کے لیے لوگ اس سے رجوع کرتے تھے۔ تمام قبائل میں اسے احترام اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اس کی حکمت اور دانش مثالی تھی اتنی کہ اسے ’’حکمت کا باپ‘‘ کہا جاتا تھا۔ ’’ابوالحکم‘‘ لیکن میرے آقا رسالت مآب عالی مرتبت ؐ نے اسے ابو جہل کا نام دیا اور پھر یہ لقب اس درجہ مشہور ہوا کہ لوگ اس کا پرانا لقب بھول گئے۔ تمام عرب اسے ابو جہل کے نام ہی سے پکارنے لگا۔
وزیراعظم عمران خان نے قوم کو تلقین کرتے ہوئے کہا کہ قیادت کے لیے ایسے افراد منتخب کریں جن کی بیرون ملک جائداد نہ ہوں۔ جن کا جینا مرنا پاکستان اور اہل پاکستان کے ساتھ ہو۔ ایسا لیڈر ہی قوم کی قیادت کا اہل ہوسکتا ہے۔ عمران خان نے قیادت کا جو پیمانہ دیا ہے کیا یہ اور اس سے بھی بڑھ کر اوصاف قیادت کا معیار ہوسکتے ہیں؟۔ ابو الحکم کو ابو جہل قرار دے کر رسالت مآب ؐ نے اس کا جواب نفی میں دیا ہے اور بتا دیا ہے کہ قیادت کا معیار اسلام ہے۔ اسلام ایک کسوٹی ہے جس پر ہر قائد، ہر شخص، ہر عقیدے، ہر نظریے، ہر خیال، ہر نعرے، ہر بہادری، ہر علم، ہر حکمت، ہر اچھائی، ہر برائی غلط اور صحیح کو پرکھا جائے گا، اس کا تعین کیا جائے گا۔ اگر وہ اسلام سے متصادم ہے تو محض اور محض جہالت ہے۔ جہالت کے سوا اسے کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔ اللہ سے بغاوت پر مبنی نظام میں کوئی شخص کتنا ہی بڑا قوم پرست ہو، اس کے تمام اثاثے اندرون ملک ہوں، اس کا جینا مرنا قوم کے لیے ہو، وہ کتنا ہی اچھا ہو، سچا ہو، دیانت دار ہو، صدر ہو وزیراعظم ہو اس کی حیثیت اس ظالمانہ نظام کے ایک خدمت گار کی ہوگی۔ اس کی تمام خوبیوں، تمام اچھے اقدامات اور ترقی کا فائدہ ظلم کے نظام کو پہنچے گا۔ ضرورت درست سمت کی ہے۔ اگر سمت درست ہو تو ایک کم اوصاف کا حامل شخص بھی منزل تک پہنچا سکتا ہے۔ غلط راستے پر گامزن ہوں تو اعلیٰ ترین اوصاف بھی منزل تک نہیں پہنچا سکتے۔
صحیح اور غلط کی پیمائش کے لیے اسلام حلال اور حرام کا ایسا پیمانہ دیتا ہے جس میں تبدیلی کا اختیار کسی کے پاس نہیں۔ جو زمان اور مکان کی قید سے آزاد ہے جب کہ دنیا میں مروجہ سرمایہ دارانہ نظام میں عمل کا معیار مفاد ہے۔ حکمران قومی مفاد کے نام پر اپنے ہر عمل کا جواز پیش کرسکتے ہیں۔ اپنے ہر عمل کو مبنی بر حق ظاہر کرسکتے ہیں۔ جنرل ایوب خان نے ستلج اور بیاس قومی مفاد کے نام پر انڈیا کے سپرد کردیے۔ جنرل یحییٰ خان نے آدھا ملک گنوا دیا لیکن قومی مفاد میں اقتدار اپنے ہی ملک کی اکثریتی پارٹی کے سپرد نہیں کیا۔ جنرل ضیا الحق نے یہ کہہ کر سیاچن کا دفاع کرنے سے انکار کردیا کہ وہاں تو گھاس کی پتی بھی نہیں اگتی۔ ایسا انہوں نے قومی مفاد میں کیا تھا۔ جنرل پرویز مشرف نے امریکا کو فوجی اڈے دینے کو قومی مفاد کا نام دیا اور لاکھوں افغان مسلمانوں کو ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کے تابوت میں بند کرکے بھسم کردیا۔ سرمایہ دارانہ نظام میں کوئی ریڈ لائن نہیں ہے۔ ریڈ لائن صرف اسلام کے پاس ہے۔ جو حرام ہے وہ ریڈ لائن ہے جسے عبور کرنے کی اجازت کسی کو نہیں۔
اسلام میں فیصلے قرآن وسنت کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں، انصاف کا مدار شریعت کے فیصلوں پر ہے جب کہ پاکستان میں رائج موجودہ نظام میں فیصلے برطانوی پینل کوڈ کے ذریعے کیے جاتے ہیں۔ عمران خان مدینے جیسی ریاست کی تکرار کررہے ہیں لیکن پاکستان کے عوام کو انصاف برطانوی پینل کوڈ کے ذریعے دلانا چاہتا ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں اگر چیف جسٹس ایسا نظام وضع کرنے میں کامیاب ہوجائیں جس میں مقدمات کے فیصلے ایک برس میں ممکن ہوسکیں تو یہ انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہوگا۔ اسلام کے نظام عدل میں بغیر کسی قدغن کے مقدمات از خود انتہائی کم وقت میں فیصل ہوجاتے ہیں لیکن اسلام کے نظام عدل کا نفاذ عمران خان کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ مدینے کی ریاست خلافت میں حکمران معیشت سے متعلق ہر قانون قرآن وسنت سے اخذ کرتے تھے جس میں سود کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ سود اللہ اور اس کے رسول ؐ سے جنگ کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام معیشت کی بنیادیں ہی سود پر استوار ہیں۔ عمران خان نے کہیں ہلکا سا اشارہ بھی نہیں دیا کہ وہ اس ملک سے سودی نظام ختم کرنا چاہتے ہیں۔ خلافت راشدہ میں داخلہ پالیسی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی وحی پر مبنی ہوتی ہے۔ مسلمانوں کے تمام علاقوں کو ایک ریاست تصور کیا جاتا ہے۔ موجودہ نظام میں مسلمانوں کے علاقوں کو الگ الگ قومی ریاستوں میں تقسیم کردیا گیا ہے جن کے مفادات ایک دوسرے سے مربوط نہیں ہیں بلکہ بیش تر قومی ریاستیں ایک دوسرے سے برسر جنگ ہیں۔ مدینے جیسی ریاست میں خارجہ پالیسی اس بنیاد پر استوار کی جاتی ہے کہ مسلمانوں کی دشمن ریاستوں سے اتحاد نہیں کیا جاسکتا لیکن ہزار ذلتیں اور دھوکے کھانے کے باوجود نواز شریف ہوں یا عمران خان سب امریکا، مغرب، بھارت اور دیگر مسلم دشمن قوتوں سے دوستی کو قوم کے مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔
اعلیٰ قیادت کے لیے جرات اور بہادری سے لے کر حکمت اور دانش تک اعلیٰ اوصاف سے مزین ہونا مستحسن ہے لیکن سب سے بڑھ کر اس کا اسلام سے وابستہ ہونا اور ملک میں اسلام کو نافذ کرنا لازم ہے۔ اگر اسلام کے علاوہ کسی اور نظام کو نافذ کررہا ہے تو وہ قوم کو غلط راستے پر لے کر چل رہا ہے۔ تمام تر اعلیٰ اوصاف اور جہد مسلسل کے باوجود ایسی قیادت قوم کو اس کی منزل تک نہیں پہنچا سکتی۔ ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہوں لیکن اگر اسلام نہیں ہے تو ایسی ترقی ہماری منزل نہیں ہے۔ عالی مرتبت ؐ کا فرمان ہے اسلام کے سوا سب رد ہے۔