اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیر احمد) پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کا ری کرنے والوں کے تحفظات دور کرنے کے لیے حکومت 5 وفاقی وزارتوں، وزارت خزانہ، وزارت قانون، وزارت داخلہ، وزارت خارجہ اور وزارت تجارت میں مربوط نظام بنائے گی‘ اس مربوط نظام کے تحت غیر ملکی سرمایہ کاری کو محفوظ بنایا جائے گا اور بیرون ملک سے پاکستان سرمایہ لانے والوں کے تحفظات بھی دور کیے جائیں گے‘ ملک میں سرمایہ کاری لانے کے منصوبے اور پالیسی کو وزارت خزانہ کی براہ راست نگرانی میں رکھا جائے گا اور دیگر متعلقہ وزارتیں وزیر خزانہ کے لیے بطور معاون کام کریں گی‘ وسائل پیدا کرنے کے لیے کمشنر، ڈپٹی کمشنرز اور آئی جی پولیس کی وسیع و عریض رہائش گاہوں میں استعمال ہونے والی جگہ پہلے مرحلے میں فروخت کی جائیگی اور اس کے لیے ہوم ورک بھی شروع کیا جا رہا ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ وزیر خزانہ اسد عمر اپنے ویژن کے مطابق وزارت کے امور چلائیں گے اور وہ بطور وزیرخزانہ اپنی سوچ کو فیصلوں کی صورت میں نافذ کرنا چاہتے ہیں‘ ان کی نگرانی میں وفاقی حکومت نے وزارت خزانہ سے متعلق تمام شعبوں میں اصلاحات لانے کے لیے پیپر ورک شروع کردیا ہے اور ایف بی آر کے چیئرمین جہاں زیب کی تعیناتی پہلا قدم ہے‘ ان کے تقرر کے بعد ایف بی آر میں تمام ممبرز تبدیل کردیے جائیں گے۔ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ مستقبل میں ٹیکس اور پالیسی 2 الگ الگ شعبوں کے ساتھ چلائے جائیں گے‘ ایف بی آر کا کام صرف ٹیکس اکٹھا کرنا ہوگا اور پالیسی سازی کے لیے فیسیکل پالیسی بورڈ کے نام سے ایک الگ ادارہ تشکیل دیا جائے گا۔ یہ ادارہ وزیر خزانہ کی سربراہی میں کام کرے گا اور امور خزانہ کے تمام شعبوں کی نگرانی کرے گا‘ حکومت نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ ملک میں بیرون ملک سے آنے والی سرمایہ کاری کو محفوظ بنانے اور اعتماد سازی کے لیے مشیر سرمایہ کاری عبدا لرزاق داؤد، وزیر خزانہ اور وزارت خارجہ کے علاوہ وزارت داخلہ ایک مربوط نظام کے تحت باہمی رابطہ کاری کریں گے۔ ذرائع نے بتایا کہ حکومت چاہتی ہے کہ کمشنر، ڈپٹی کمشنرز اور آئی جی پولیس کی وسیع و عریض رہائش گاہوں میں استعمال ہونے والی جگہ پہلے مرحلے میں فروخت کی جائے اور اس کے لیے ہوم ورک بھی شروع کیا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف کے ایک انتہائی ذمے دار رہنما نے بتایا کہ مالیاتی ڈسپلن بہتر بنانا پہلی ترجیح ہے‘ ہماری پالیسی یہ ہوگی کہ ٹیکس کم کیے جائیں اور وصولیاں زیادہ کی جائیں اور معیشت، صحت، تعلیم اور خصوصاً ہاؤسنگ کے شعبے میں کسی مفاد پرست مافیا اور نجی شعبے کو پالیسی پر اثر انداز نہیں ہونے دیا جائے گا‘ حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ملک پر واجب الادا قرض ہے‘ 2013ء میں غیر حکومتی بیرونی قرضوں کا حجم 649 ارب روپے تھا‘ اس میں 1300 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے‘ 5 سال کے دوران آئی ایم ایف کا قرضہ 435 ارب روپے سے بڑھ کر741 ارب روپے تک جا پہنچا ہے جب کہ ہماری قومی معیشت کی مالی قوت 100 ارب ڈالر سے زاید ہے اس وقت پاکستان پر 29.9 ٹریلین روپے کے قرضے واجب الادا ہیں۔ طے شدہ فارمولے کے مطابق قرضوں کا حجم قومی پیداوار کے60 فیصد سے زاید نہیں ہونا چاہیے ‘حکومت چاہتی ہے کہ اپنے ملک کے اندر وسائل پیدا کیے جائیں تاکہ قرضوں کا بوجھ ہلکا ہوسکے۔