جرم بے گناہی کی سزا 

187

عدالت عالیہ سندھ نے مقدمات کے بغیر ایک شہر ی عمر کو ساڑھے چار سال تک جیل میں رکھنے کے خلاف دائر اپیل پر تفتیشی افسر سے 7ستمبر تک جواب طلب کرلیا ہے۔ جسٹس عبدالرسول میمن نے اپنے تبصرے میں کہاہے کہ تفتیشی افسر اور جیل حکام کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے گا، پولیس والوں نے جنگل کا قانون بنا رکھا ہے۔ یہی بات پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے مجموعی صورت حال کے حوالے سے کہی ہے کہ گڈ گورننس کے دعوے دیکھیے، ملک میں جنگل کا قانون نظر آرہا ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ انہوں نے حزب اختلاف سے تعلق کی بنا پر نئی حکومت پر تنقید کی ہے لیکن ایسا ہی کچھ پچھلی حکومتوں میں بھی ہوتا رہا ہے اور سندھ میں بھی ہو رہا ہے جہاں خورشید شاہ کی پارٹی گزشتہ 10برس سے حکومت میں ہے۔ جنگل کا قانون ایک محاورہ بن چکا ہے لیکن جنگل میں یہ سب نہیں ہوتا جو انسانوں کی بستیوں اور انسانوں کی حکومتوں میں ہوتا ہے۔ یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ جنگل میں طاقت ور جانور کمزور کو دبا لیتا ہے لیکن دوسری طرف شیر سمیت کوئی بھی خطرناک جانور بلاوجہ کسی پر حملہ نہیں کرتا اور پیٹ بھر جانے کے بعد آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔ یہ توانسان ہی ہے جو پیٹ بھرے پر مستیاں کرتا اور بلاوجہ دوسرے کو نقصان پہنچاتا ہے۔ شہری عمر ہی کا معاملہ دیکھ لیجیے۔اس کو ساڑھے چارسال تک بلاوجہ جیل میں ڈالے رکھنے میں کسی کا فائدہ نہیں تھا لیکن کسی نے پلٹ کر پوچھا ہی نہیں کہ وہ جیل میں کیوں ہے۔ کم از کم جیل حکام کو تو معلوم کرنا چاہیے تھا کہ وہ کس جرم میں بند ہے۔ جن کو سزا ہوتی ہے ان کا ریکارڈ جیل حکام کو فراہم کیا جاتا ہے۔ لیکن جب اس بے گناہ شہری نے کسی طرح جیل کے باہر ایک ادارے سے رابطہ کیا تو معاملہ عدالت تک پہنچا۔ تفتیشی افسر نے عدالت میں معافی مانگ لی ہے لیکن کیاایک بے گناہ شخص کے چار سال واپس مل جائیں گے؟ بات صرف اتنی ہی نہیں ہے بلکہ جس شخص کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے پورا معاشرہ اسے مجرم سمجھ کر اس کے اہل خانہ کا بائیکاٹ کردیتا ہے اور وہ ذہنی اذیت میں مبتلا رہتے ہیں۔ اس کا ازالہ کسی معافی سے نہیں ہوسکتا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تفتیشی افسر کو بھی اتنی ہی مدت کے لیے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے۔ لیکن ایسا ہوگا نہیں کہ رائج قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔