بچوں کے ذہنی امراض فرسٹریشن (Frustration)

213

فوزیہ عباس
(گزشتہ سے پیوستہ)
خود پر قابو رکھنا
اگر بچہ/بچی سادگی، قناعت، تحمل و بردباری جیسی اعلیٰ صفات کا حامل ہو تو وہ ناکامی کی صورت میں خود پر قابو رکھتا اور اپنے جذبات و احساسات کو منفی رُخ اختیار نہیں کرنے دیتا۔ لیکن اگر بچہ/بچی کمزور شخصیت کا مالک ہو، جذباتی، جلدباز، بے صبرا اور کمزور قوت ارادی کے باعث جلد مایوس ہو جانے والا ہو تو پھر کسی ناکامی یا عدم تسکین کی صورت میں پیدا ہونے والے اضطراب، تنائو اور فشار کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور بے قابو ہو کر فرسٹریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔
مقصد/خواہش/ضرورت سے فاصلہ
بچہ/بچی اپنا مقصد حاصل کرنے، خواہش یا ضرورت پوری کرنے کے جتنا زیادہ قریب ہوتا ہے ناکامی/عدم تسکین کی صورت میں مایوسی اور فرسٹریشن بھی اتنی زیادہ ہوتی ہے۔ منزل کے قریب پہنچ کر ناکام ہونے کی تکلیف برداشت کرنا عموماً بچے/ بچی کے لیے ممکن نہیں ہوتا اور اگر بار بار ایسی صورتحال پیش آئے تو فرسٹریشن کی شدت بڑھ جاتی ہے۔
توانائی کا مثبت اخراج
بچوں کے اندر قدرتی طور پر بے پناہ توانائی ہوتی ہے۔توانائی کے اس ذخیرے کو اگر اخراج کا مثبت موقع نہ ملے تو بھی بچہ/بچی فرسٹریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔
-ii بیرونی عوامل و وجوہات
بیرونی عوامل بچے/ بچی پر بیرونی ماحول سے اثرانداز ہوتے اور بعض اوقات اس کے کنٹرول سے باہر ہوتے ہیں۔ بیرونی عوامل دو طرح کے ہوتے ہیں۔ (الف) ماحولی عوامل اور (ب) سماجی عوامل۔
ماحولی عوامل
اِردگرد کے ماحول میں موجود رکاوٹیں بھی کسی بچے/ بچی کے لیے ناکامی کا باعث بنتی اور فرسٹریشن پیدا کرتی ہیں۔ مثلاً بچے/ بچی نے فائنل امتحان کی تیاری کرنی ہے مگر گھر میں مہمانوں کی آمدورفت جاری رہتی ہے یا گھر میں ہر وقت چھوٹے بچے شور مچاتے رہتے ہیں۔ ٹی وی کی اونچی آواز اور دیگر افرادِ خانہ کے عدم تعاون کی وجہ سے بچہ/بچی سکون سے پڑھ نہیں پاتا تو فرسٹریشن پیدا ہوتی/ ہوسکتی ہے۔ اسی طرح گھر کے اندر اور گھر سے باہر بے شمار ایسے عوامل ہیں جو روزمرہ معمولات کی انجام دہی میں رکاوٹ بن کر فرسٹریشن میں مبتلا کرتے ہیں۔
سماجی عوامل
بچہ/بچی دنیا میں آتے ہی سماجی زندگی کا حصہ بن جاتا ہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ اسے سماجی زندگی کے طور طریقے، ادب آداب، عادات و اطوار سیکھنے اور اپنانے پڑتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے اکثر بچپن میں سکھائی گئی باتیں عملی طور پر معاشرتی و سماجی زندگی سے میل نہیں کھاتے/مطابقت نہیں رکھتیں۔ مثلاً بچے کو سکھایا جاتا ہے جھوٹ بولنا بُری بات/عادت ہے، لیکن عملاً سماجی زندگی میں وہ دوسروں ہی کو نہیں والدین اور اساتذہ کو بھی قدم قدم پر چھوٹے بڑے جھوٹ بولتے دیکھتا اور سنتا ہے۔ اسے سکھایا جاتا ہے کہ ٹریفک قوانین کی پابندی کرنی چاہیے۔ لال سگنل پر رکنا چاہیے، مگر عملی طور پر ہر شخص پیلے اشارے پر جلدی سے آگے نکل جانا چاہتا ہے تاکہ لال اشارے پر رُکنا نہ پڑے۔ بلکہ اکثر تو لوگ لال بتی کی بھی پروا نہیں کرتے، بھلے سے دوسرے کا جانی نقصان ہی کیوں نہ ہو جائے۔ قول و فعل میں تضاد کی یہ کیفیت بچے کے ذہن کو الجھاتی اور فرسٹریشن پیدا کرتی ہے۔
چھوٹے بچوں میں سماجی اقدار سکھانے کے عمل میں حسبِ ذیل عوامل بھی کہیں نہ کہیں فرسٹریشن پیدا کرنے کی وجہ ضرور بنتے ہیں۔
مدت رضاعت
شیرخوارگی کے زمانے میں بچے کے لیے ماں کا دودھ پینا طبی ہی نہیں نفسیاتی و جذباتی نقطہ نظر سے بھی اہم ہے۔ اگر یہ عرصہ مختصر ہو اور (خواہ کسی بھی وجہ سے) جلد ہی بچے کو بوتل کے دودھ پر لگا دیا جائے تو بچے کی ذہنی، جذباتی اور جسمانی نشوونما ہی نہیں نفسیاتی صحت پر بھی بُرا اثر پڑتا ہے۔ بچہ مستقبل میں جذباتی عدم تحفظ کا شکار ہو جاتا اور فشار/ دبائو/ تنائو برداشت نہیں کرپاتا، چنانچہ جلد مشکلات کا شکار ہو کر فرسٹریشن میں مبتلا ہو جاتا/ہوسکتا ہے۔
ٹوائلٹ ٹریننگ (تربیت اجابت)
عموماً پہلے تین سالوں کے دوران میں بچے/بچی کی ٹوائلٹ ٹریننگ شروع ہوتی ہے، اس دوران میں اگر بچے/بچی پر غیر معمولی سختی کی جائے بہت زیادہ ڈانٹ ڈپٹ/مارپیٹ کی جائے تو بھی بچے کے اندر کئی طرح کی جذباتی الجھنیں پیدا ہوتی ہیں جو آئندہ زندگی میں اسے جلد فشار/ دبائو/ تنائو میں مبتلا کرکے فرسٹریشن کا شکار بنا دیتی ہیں۔
جذبۂ رقابت
بچوں میں رقابت کا جذبہ بھی فرسٹریشن سمیت کئی طرح کے مسائل کا باعث بنتا ہے۔ چھوٹے بچے/بچی میں عموماً دوسرا بہن بھائی آنے کے بعد نظرانداز ہونے پر جذباتی عدم تحفظ اور ذہنی دبائو کے ساتھ فرسٹریشن پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح بڑے بچوں میں اگر یہ احساس پیدا ہو جائے کہ والدین کسی ایک/دو بچے کو زیادہ چاہتے ہیں تو بسااوقات یہ احساس بھی فرسٹریشن کا باعث بن جاتا/بن سکتا ہے۔ عموماً پہلا اور آخری بچہ/بچی ضرورت سے زیادہ لاڈلا اور نازک مزاج ہوتا ہے۔ چنانچہ یہی غیر ضروری لاڈپیار اور توجہ اسے حساس بنا دیتی ہے اور وہ ذرا سی بھی عدم توجہ یا لاڈپیار میں کمی برداشت نہیں کرپاتا اور رفتہ رفتہ فرسٹریشن کا شکار ہونے لگتا/ہو جاتا ہے۔