پیپلزپارٹی کی وجہ سے عمران خان وزیراعظم بنے،مولانا فضل الرحمن 

487
کوئٹہ :جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن پریس کانفرنس کر رہے ہیں
کوئٹہ :جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن پریس کانفرنس کر رہے ہیں

کوئٹہ (نمائندہ جسارت) متحدہ مجلس عمل کے سربراہ اور متحدہ اپوزیشن کے صدارتی امیدوار مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہصدارتی انتخاب میں حزب اختلاف کا ایک ہی امیدوار سامنے آیا تو کامیابی کے امکانات ہیں، وزیراعظم کے انتخاب میں عین موقع پر پیپلز پارٹی کے ووٹ نہ دینے سے عمران خان وزیراعظم بنے ،اس عمل سے حزب اختلاف کو زخم ملا،اب پھر وہی صورت اختیار کی جارہی ہے ،پیپلز پارٹی کو صدارتی انتخابات میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتفاق رائے کا احترام کرنا چاہیے ، ان کے امیدوار کا حزب اختلاف کو نقصان پہنچانے کے علاوہ کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا۔ وہ صدارتی انتخابات میں حمایت حاصل کرنے کی غرض سے کوئٹہ پہنچنے کے بعد مقامی ہوٹل میں پریس کانفرنس کررہے تھے۔ اس موقع پر پارٹی کے جنرل سیکرٹری مولانا عبدالغفور حیدری، صوبائی امیر مولانا فیض محمد، صوبائی جنرل سیکرٹری ملک سکندر ایڈووکیٹ، ارکان قومی اسمبلی مولانا عصمت اللہ، صلاح الدین ایوبی اور دیگر بھی موجود تھے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہمتحدہ حزب اختلاف نے اس جذبے اور فلسفے کے تحت کہ میں سب کے لیے قابل قبول مشترکہ امیدوار بن سکتا ہوں مجھ پر اعتماد کیا ہے اور اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ آل پارٹیز کانفرنس سے وابستہ جماعتیں ہوں یا اس سے باہر ، سب سے ہم رابطہ کررہے ہیں اور اپنا مؤقف ان کے سامنے رکھ رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی معتبر سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ، پشتونخواملی عوامی پارٹی ،اے این پی اور قومی وطن پارٹی نے بھی ہماری حمایت کی ہے۔ سردار اختر جان مینگل کے ساتھ میرا خود رابطہ ہوا ہے وہ بھی تشریف لارہے ہیں، پیپلز پارٹی سے گفتگو چل رہی ہے اور ان کو اس بات پر آمادہ کیا جارہا ہے کہ وہ متحدہ حزب اختلاف اورآل پارٹیز کانفرنس کے نمائندے کا انتخاب کرکے ایک متحدہ امیدوار کے لیے قربانی دیں اور اس کی کامیابی کے امکانات کو روشن کریں۔ مولانا فضل الرحمن کے سوال کے جواب میں کہا کہ ہم تو اسمبلی میں جانے اور حلف اٹھانے کے روادار بھی نہیں تھے لیکن تمام جماعتوں نے جائزہ لیا تو تحریک انصاف اکثریتی جماعت نہیں بلکہ ایک بڑا گروپ تھا۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے سوچا کہ ہم حکومت بناسکتے ہیں لہٰذا ہم اپنا وزیراعظم، اپنا اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر لائیں گے۔اسمبلی میں جائے بغیر ہم وزیراعظم اور اسپیکر کو کیسے ووٹ دیتے۔ میاں شہباز شریف اور عمران خان کے درمیان جتنے ووٹوں کا فاصلہ تھا اگر پیپلز پارٹی کا ووٹ پڑ جاتا تو شہباز شریف کی کامیابی یقینی تھی۔ اب پھر پیپلز پارٹی کو حزب اختلاف کی جماعتوں کے تفاق رائے کا احترام کرنا چاہیے۔ ان کا امیدوار صرف ایک پارٹی کے امیدوار ہے جبکہ میںیہاں دو اتحادوں کا نمائندہ ہوں ایک متحدہ مجلس عمل کا اور ایک آل پارٹیز کانفرنس کا۔ خورشید شاہ سے آج بھی فون پر رابطہ ہوا۔ آصف زرداری صاحب کو پیغام بھیج رہا ہوں حزب اختلاف کو نقصان ہوگا ۔ صحافی کے سوال ’’آصف زرداری کا اپوزیشن پر اعتماد نہیں یا پھر وہ کیسز سے بچنے کے لیے اپوزیشن کا ساتھ نہیں دینا چاہتے‘‘ پر مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ آپ صحافی اس مرحلے پر ایسے مشکل سوالات کرلیتے ہیں ،نہ تو خود اپنے آپ کو مشکل میں ڈالنا چاہتا ہوں اور نہ اپنے دوست کو مشکل میں ڈالنا چاہتا ہوں۔ آصف زرداری سے ہی نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کے ساتھ ہماری جمہوریت کے لیے جدوجہد میں ہماری طویل رفاقت رہی ہے ارہم ذاتی طور پر ایک دوسرے سے اپنی دوستی کا اظہار کھل کر کرتے ہیں اس حوالے سے بھی مجھے ان سے یہی توقع ہے کہ وہ دوستی کے تقاضوں پر پورا اتریں گے۔ہیلی کاپٹر اخراجات سے متعلق سوال پر متحدہ مجلس عمل کے سربراہ نے کہا کہ میرے خیال سے ہمارے ملک کی سیاست کو اسی قسم کی باتوں نے بے توقیر کیا ہے ۔ان چیزوں سے ملک کی معیشت بہتر ہوا نہیں کرتی۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ محنت کتنی ہے اور کتنی دیانت کے ساتھ ہے ، تجارت اور آمدن میں کس طرح اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ہمیں ملک کا سوچنا ہوگا کہ کس طرح اسے خود انحصاری کی طرف لائے۔ پاکستان کے اپنے وسائل بہت زیادہ ہیں لیکن ہمار انحصار قرضوں اور باقی دنیا پر ہے۔