ٹیلی ڈرامے کی سازش اور پاکستان زندہ باد

602

آزاد قوموں کی ہر چیز آزاد ہوتی ہے۔ ان کی فکر، ان کی تہذیب، ان کی تاریخ، ان کی ریاست، ان کی سیاست، ان کی معیشت، ان کا آرٹ، ان کی تفریح۔ اس کے برعکس غلام قوموں کی ہر چیز پر غلامی کا سایہ ہوتا ہے۔ کہنے کو پاکستان کی تخلیق کو 72 سال ہوگئے مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے ملک کی ہر چیز کو غلامانہ ذہنیت کی نذر کیا ہوا ہے۔ ہمارے یہاں جتنے مارشل لا آئے ہیں امریکا کی مرضی سے آئے ہیں۔ ہمارے یہاں جتنی بار جمہوریت بحال ہوئی ہے امریکا کے دباؤ پر ہوئی ہے۔ ہماری معیشت پانچ دہائیوں سے عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے شکنجے میں ہے۔ ہمارا دفاع جنرل ایوب کے زمانے سے امریکا مرکز یا America Cantric ہے۔ یہاں تک کہ اب تو ہمارا ٹیلی ڈراما اور تفریح کے تصورات بھی مغرب سے آرہے ہیں۔
اس کا تازہ ترین ثبوت 19اگست 2018ء کے ڈان میں شائع ہونے والے ملک کے تین معروف ڈراما نگاروں کے انٹرویو ہیں۔ ان ڈراما نگاروں میں آمنہ مفتی، فصیح باری خان اور ساجی گل ہیں۔ ان ڈراما نگاروں کے انٹرویوز کی تفصیلات دل دہلا دینے والی ہیں۔ آئیے پہلے ڈراما نگاروں کے خیالات کی تخلیص ملاحظہ کرتے ہیں۔
معروف ڈراما نگار اور ناول نویس آمنہ مفتی نے بتایا کہ اب ڈراموں کے ناظرین کی اکثریت کی عمر 15 سے 45 سال کے درمیان ہے۔ انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ ریٹنگ حاصل کرنے والے ڈرامے وہ ہوتے ہیں جو ساس بہو کے کرداروں اور بچوں کی پیدائش کے گرد گھومتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب ڈراموں کی پالیسی Rating سے متعین ہوتی ہے تاہم Rating کتنی قابل بھروسا ہے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اس لیے کہ Rating کے لیے پورے ملک سے بمشکل پانچ ہزار لوگوں کی رائے حاصل کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اشتہاری نقطہ نظر سے اہم ترین ناظرین خواتین اور بچوں پر مشتمل ہیں۔ چوں کہ اشتہاری صنعت ڈرامے کو مدد مہیا کرتی ہے اس لیے ہماری اشتہاری صنعت عورت مرکز ہوگئی ہے۔ چوں کہ مردوں کی اکثریت نیوز چینل دیکھتی ہے اس لیے اب ٹی وی کے ناظرین منقسم ہوگئے ہیں اور گھروں میں لوگ خاندان کے ساتھ بیٹھ کر ڈراما نہیں دیکھتے۔ انہوں نے کہا کہ اب ڈرامے کے دوران کاروں اور گھروں کے اشتہارات نشر نہیں ہوتے۔ آمنہ مفتی کے بقول جو لوگ گھروں کی زندگی کے گرد گھومنے والی کہانیوں میں دلچسپی نہیں رکھتے وہ ڈراما نہیں دیکھتے نہ ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین ڈراما دیکھتی ہیں۔
ڈراموں کی کہانیاں گھریلو جھگڑوں، مظلوم اور قربانی دینے والی خواتین کے گرد طواف کرتی ہیں، اسی طرح مردوں کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہونے والی خواتین کی کہانیاں بھی بہت پسند کی جاتی ہیں۔ ایسے ڈرامے جن میں خواتین کے دوچار تھپڑ رسید کردیے جائیں یا جن میں خواتین کو فرش پر گرا کر گھسیٹ لیا جائے بلند Ratings حاصل کرتے ہیں۔ ایسے ڈراموں کی عورت کی کوئی Self respect نہیں ہوتی۔ اس میں Comon Sense بھی نہیں ہوتا، البتہ اس میں آنسو بہانے کی بڑی صلاحیت ہوتی ہے۔ چند ہی ڈراموں میں معاشرے کے اہم اور سنجیدہ مسائل کو موضوع بنایا جاتا ہے۔ گزشتہ سال ہمارے چینلوں پر 100 سے زیادہ سیریل نشر ہوئے مگر ان میں چند ہی سیریل سنجیدہ موضوعات سے متعلق تھے۔
فصیح باری خان نے کہا پی ٹی وی کے زمانے میں ایسے ڈرامے نشر ہوتے تھے جب ناظرین ڈراموں کے توسط سے زندگی پر غور و فکر کرتے تھے۔ مگر اب ایسا نہیں ہے۔ ہمیں بڑے ڈراما نگاروں کا ورثہ منتقل ہوا مگر معلوم نہیں کہ اب اگر اشفاق احمد جیسے لوگ بھی ہوتے تو ڈرامے کے میدان میں اپنی جگہ بنا پاتے یا نہیں؟۔
ساجی گل نے انٹرویو میں کہا اگر آپ ڈراما نگار کی حیثیت سے زیادہ علم رکھتے ہیں، آپ گہرائی میں جا کر لکھتے ہیں تو ناظرین آپ کے ڈراموں کو سمجھنے سے قاصر ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ڈراموں میں این جی اوز کا سرمایہ استعمال ہورہا ہے۔ اڑان جیسا ڈراما این جی او کے تعاون سے تخلیق ہوا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب صرف ڈراموں کے دائرے نہیں آرٹسٹ کے ہر دائرے میں اسکرپٹ Dictation کا شکار ہورہے ہیں۔
اب کہانی پر ڈراما نگار کا کوئی کنٹرول ہی نہیں رہا۔ باری صاحب نے کہا کہ اب ہمارے ڈراموں میں یا تو عورت ’’Victum‘‘ نظر آتی ہے یا ترقی پسند یعنی ’’Progressive‘‘۔ ان کے بقول ڈرامے پر شعبہ مواد یا Content Department کا قبضہ ہو چکا ہے اور اس شعبے میں ایسے لوگ آگئے ہیں جنہیں نہ انگریزی آتی ہے نہ اردو، یہ محدود سوچ کے حامل لوگ ہیں۔ انہیں زندگی کے حقائق کا کوئی علم ہی نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ایک مشکل یہ ہے کہ اب جو لوگ ڈراما لکھ رہے ہیں ان میں سے اکثر لوگوں کا ادب سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا، مسئلہ یہ بھی ہے کہ اب اگر ڈرامے کا موضوع سنجیدہ ہو تو پروڈیوسر کیا اداکار
تک ڈرامے میں کام کرنے سے انکار کردیتے ہیں کیوں کہ انہیں خوف ہوتا ہے کہ اس ڈرامے کو اچھی Rating نہیں ملے گی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چینل والے کہتے ہیں کہ جس ڈرامے میں اداکار بھی کام کرنے پر آمادہ نہ تھے اسے کیوں نشر کیا جائے۔ میرے ایک ڈرامے کو چند قسطوں کے بعد ’’آف ائر‘‘ کردیا گیا کیوں کہ اس کو اچھی Rating نہیں مل رہی تھی۔ اگر کسی ڈرامے کی کہانی عورت مرکز ہونے کے بجائے مرد مرکز ہو تو اس کی Rating تیزی کے ساتھ گر جاتی ہے۔ آمنہ مفتی کے بقول بھارتی ڈراموں نے ہمارے ناظرین کے ذوق کو برباد کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ساجی گل نے کہا کہ دانش ورانہ مواد کے حامل ڈراموں کو تاریک یا ’’Dark‘‘ کہا جاتا ہے۔ البتہ اگر کہانی میں گلیمر ہو تو اسے فوراً قبول کرلیا جاتا ہے۔ اس طرح ہلکی پھلکی کہانیوں پر مشتمل ڈرامے پسندیدہ بنے ہوئے ہیں۔ اگر آپ کے ڈرامے میں عورت کا کردار منفی اور مرد کا کردار مثبت ہے تو ڈراما نگار کو حکم دیا جاتا ہے کہ مرد کے کردار میں بھی کوئی ٹیڑھ، کوئی منفیت پیدا کرو۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ڈراما مسترد کردیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ داری ڈرامے کو تباہ کررہی ہے۔ زوال آمادہ معاشرے کا ڈراما بھی زوال آمادہ ہوتا جارہا ہے۔ اب ہمارے یہاں تاریخی ڈراموں کے لیے کوئی اسکوپ نہیں رہ گیا۔ باری صاحب نے بتایا کہ انہوں نے 1857ء کے پس منظر میں ایک ڈراما۔ لکھا تھا مگر وہ قبول نہ کیا گیا۔ فصیح باری نے کہا کہ جب تک ڈرامے پر منشیوں یا کلرکوں کا غلبہ رہے گا کچھ نہ ہو سکے گا کیوں کہ یہ منشی یا کلرک Dictation لیتے ہیں۔
آرٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ تخلیقی عمل ذہنی آزادی کی علامت ہوتا ہے۔ مگر پاکستان کے تین ڈراما نگاروں کے خیالات بتارہے ہیں کہ ہمارے ٹیلی ویژن کی سب سے مقبول صنف پر این جی اوز کا قبضہ ہوچکا ہے۔ این جی اوز بتارہی ہیں کہ کس موضوع پر ڈراما لکھا جائے گا اور کس موضوع پر ڈراما نہیں لکھا جائے گا۔ اڈاری حال ہی میں نشر ہونے والا ایک مقبول ڈراما تھا۔ اس ڈرامے میں ایک بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والے انسان کا کردار پیش کیا گیا تھا مگر مذکورہ بالا انٹرویوز سے معلوم ہوا کہ اس ڈرامے کی پشت پر ایک این جی او موجود تھی۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ یہ ڈراما مغرب کے تصور زندگی کے مطابق تھا۔ لیکن مسئلہ صرف اتنا سا نہیں ہے۔ ڈرامے کو پورے معاشرے کا عکاس ہونا چاہیے مگر جیسا کہ ہمارے ڈراما نگاروں نے کہا ہے کہ ڈراما صرف عورت مرکز ہوگیا ہے اور عورت مرکز ڈراموں میں بھی عورت ماں، بیوی، بہن، بیٹی کے طور پر نہیں بلکہ صرف ایک مظلوم عورت کی حیثیت سے پیش ہورہی ہے یا پھر وہ مذہبی، اخلاقی اور معاشرتی اقدار سے بغاوت کرنے والی نام نہاد ترقی پسند یا Progressive عورت کے طور پر پیش کی جارہی ہے۔ مطلب یہ کہ یہ کام بھی ایک ایجنڈے اور ایک سازش کے تحت ہورہا ہے۔ اصول ہے آرٹ کبھی سازشی نہیں ہوتا اور سازش کو کبھی آرٹ یا تفریح نہیں کہا جاسکتا۔ ہمارے ڈراما نگار شکایت کررہے ہیں کہ سنجیدہ موضوعات پر اول تو ڈرامے لکھے نہیں جارہے، لکھے جارہے ہیں تو انہیں یہ وڈیوس کرنے والا کوئی نہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ڈرامے کو آگہی کا ذریعہ بنانے کے بجائے ایک افیون میں تبدیل کردیا گیا ہے، اقبال نے کہا تھا؂
محکوم کے حق میں ہے یہی تربیت اچھی
موسیقی و صورت گری و علم نباتات
یعنی غلاموں کے لیے صرف موسیقی، مصوری اور علم نباتات کی تعلیم کافی ہے۔ انہیں ایسے علوم و فنون کی تعلیم سے محروم رکھو جو انہیں آگہی مہیا کرنے والے ہوں۔ گلیمر کی دنیا ہماری دنیا نہیں ہے۔ مگر یہی دنیا ہمارے ڈرامے پر چھائی ہوئی ہے۔ اشفاق احمد کا ہر ڈراما ناظر کو زندگی کے بارے میں سوچنے پر مائل کرتا تھا۔ سلیم احمد کے تاریخی ڈراموں تعبیر اور آخری چٹان کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ آج بھی ان کا ذکر ہوتا ہے، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے روزنامہ ایکسپریس کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں بتایا ہے کہ انہیں آخری چٹان اتنا پسند تھا کہ جب رات یہ ڈراما نشر ہوتا تھا میں دورہ چھوڑ کر اپنے علاقے میں واپس آجاتا تھا۔ آخری چٹان 1980ء میں پی ٹی وی سے نشر ہوا تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اب ہمارے چینلوں کے لیے ہماری امتی، ملی اور قومی تاریخ ’’مردہ شے‘‘ بن چکی ہے اور اس تاریخ پر اب کبھی ڈراما نہ بن سکے گا۔ آپ ہمارے ٹیلی ڈرامے کی ہولناکی کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ اگر ڈرامے میں کوئی کردار مثبت ہوتا ہے تو اسے بھی دباؤ ڈال کر منفی بنوا دیا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے معاشرے کو پیغام دیا جارہا ہے کہ نیکی اور خیر کا کوئی وجود نہیں۔ یہ ایک ایسا پیغام ہے جو امریکا اور یورپ کی فلموں تک میں موجود نہیں۔ امریکا اور یورپ کی فلموں میں ایک ہیرو ہوتا ہے اور ہر ہیرو کسی نہ کسی درجے میں خیر نیکی اور اثباتی رویوں کی علامت ہوتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ٹیلی ڈرامے کے ذریعے 22 کروڑ لوگوں کی قوم کو زہر کھلایا جارہا ہے۔ زہر پھیلایا جارہا ہے مگر اس سازش پر نہ کوئی دانش ور اور صحافی احتجاج کررہا ہے نہ کوئی سیاسی اور مذہبی رہنما کلام کررہا ہے۔ پاکستان زندہ باد۔