نئے چیئرمین کیلئے، پی سی بی ہیڈ کوارٹر کا کلین اپ آپریشن ناگزیر، کئی چیلنجز درپیش

386
لارڈز میں پی سی بی کے سابق چیئرمین نجم سیٹھی‘ سینئر اسپورٹس رپورٹرز کے ساتھ موجود ہیں(فائل فوٹو)
لارڈز میں پی سی بی کے سابق چیئرمین نجم سیٹھی‘ سینئر اسپورٹس رپورٹرز کے ساتھ موجود ہیں(فائل فوٹو)

کراچی (سید وزیر علی قادری)پاکستان میں تبدیلی کا نعرہ زور پکڑنے سے پہلے ہی جہاں کچھ اداروں میں اکھاڑ پچھاڑ شروع ہوئی وہیں کھیلوں سے وابستہ اداروں میں بھی بے چینی کی لہر دوڑ گئی ۔ ملک کا سب سے زیادہ کھیلے جانے والا اور پسندیدہ کھیل کرکٹ کے ناخداؤں کو بھی اپنا بستر بوریا سمیٹنے پر مجبور کردیا۔ سب سے پہلے وقت کی نزاکت کا اگر کسی کو احساس ہوا وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین نجم سیٹھی تھے جن کے لیے میڈیا میں اس توقع کا اظہار کیا جاچکا تھا کہ وہ عمران خان کے برسراقتدار آنے کے بعد اپنی سیٹ کو نہیں بچا سکیں گے۔

چند روز قبل وزیر اعظم عمران خان سے نامزد رکن پی سی بی گورننگ بورڈ احسان مانی نے ملاقات کی اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے معاملات کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔نامزد رکن پی سی بی احسان مانی نے وزیراعظم کو آگاہ کیا کہ گورننگ بورڈ کے دیگر ارکان سے رابطے کر رہا ہوں، اْمید ہے چیئرمین کے انتخاب میں تمام ارکان میرا ساتھ دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی سی بی منتخب ہوا تو آپ کی توقعات پر پورا اْتروں گا۔ احسان مانی نے توقع ظاہر کی کہ وزیراعظم کی لیڈر شپ میں قومی کرکٹ بورڈ کے معاملات میرٹ پر چلیں گے۔پاکستان کرکٹ بورڈکے چیئرمین کے انتخاب کیلئے پی سی بی الیکشن کمیشن نے شیڈول جاری کردیا ہے ۔نجم سیٹھی کے مستعفی ہونے کے بعد نئے چیئرمین پی سی بی کا الیکشن منعقد کرنے کے حوالے سے پی سی بی کے الیکشن کمشنر جسٹس (ر) افضل حیدر کی زیر صدارت اجلاس قذافی ا سٹیڈیم لاہور میں منعقد ہو ا ،جس میں پی سی بی کے عہدیدران نے بھی شرکت کی ،اجلاس میں چیئرمین الیکشن کمیشن نے کہا کہ پی سی بی کے چیئرمین کا انتخاب آزاد اور شفاف طریقے سے ہوگا جس کیلئے انتظامات مکمل کئے جارہے ہیں ،الیکشن کمیشن کو وزیر اعظم کی طرف سے بورڈ آف گورنر کی نامزدگی موصول ہونے اور بورڈ آف گورنرز کی فارمیشن مکمل ہونے کے بعد4ستمبر چیئرمین پی سی بی کے انتخاب کیلئے شیڈول جاری کردیا گیا ہے ،انتخابات میں امید کی جارہی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے پی سی بی گورننگ بورڈ کیلئے نامزد کردہ احسان مانی چیئرمین پی سی بی منتخب ہوجائیں گے ،انہیں پی سی بی گورننگ بورڈ کے اراکین کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے ۔ پی سی بی بورڈ آف گورنرز میں وزیر اعظم اور پیٹرن انچیف پی سی بی عمران خان کے نامزدہ کردہ ممبرز احسان مانی اور اسد علی خان، لیفٹیننٹ جنرل (ر) مزمل حسین (واپڈا)، ڈاکٹر نجیب صائم ( حبیب بینک)، محمد ایاز بٹ (کے آر ایل)، لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید ضیاء (سوئی سدرن گیس)، مراد اسماعیل (کوئٹہ ریجن)، شاہ ریز عبداللہ روکھڑی (لاہور ریجن)، کبیر احمد خان (فاٹا ریجن)، کیپٹن (ر) جہانزیب خان (سیکرٹری وزارت برائے بین الصوبائی رابطہ) شامل ہیں، یاد رہے کہ سیکرٹری گورننگ بورڈ میں شامل ہونے کے باوجود ووٹ دینے کا استحقاق نہیں رکھتا۔دوسری طرف حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے پی سی بی کے کئی عہدوں پر چمٹے ہویے افراد جو نئے سیٹ اپ میں ان فٹ قرار دیے جاسکتے ہیں وہ خود ہی مستعفی ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ سب سے پہلے نجم سیٹھی کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کی ڈائریکٹر مارکیٹنگ اور پاکستان سپر لیگ کی پراجیکٹ ہیڈ نائیلہ بھٹی نے بھی اپنے عہدے سے استعفی دے دیا۔ذرائع کے مطابق عہدے کے لحاظ سے ان کی تعلیمی قابلیت کم تھی اور ان معاملات کے سامنے آنے سے پہلے انہوں نے عہدے کو چھوڑنا مناسب سمجھا۔ صرف نائیلہ ہی نہیں ذرائع کے مطابق پی سی بی ہیڈ کوارٹر میں کئی ایسی آسامیوں پر افراد فائز ہیں جن پر شک ہے کہ انہوں نے تعلیمی اسناد جالی جمع کرائی تھیں۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ نجم سیٹھی پی سی بی کے ساتھ چونکہ پاکستان سپر لیگ کی ذمہ داریوں سے بھی فارغ ہو چکے لہٰذا اسی وجہ سے بااثر سمجھی جانے والی نائلہ بھٹی اپنا عہدہ چھوڑ گئی ہیں۔ان کے علاوہ میڈیا اور انٹرنیشنل کرکٹ ڈپارٹمنٹ سمیت کئی اور اہم عہدیدار جن کا تقرر نجم سیٹھی نے بطور چیئرمین کیا تھا اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے کی تیاری کررہے ہیں جن میں سے ایک ڈائریکٹر میڈیا امجد بھٹی بھی ہیں۔ وہ ڈیپیوٹیشن پر پی سی بی میں تعینات کیے گئے تھے۔ واضح رہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل انٹرنیشنل اولمپک ایسوسی ایشن کی طرح اس کی سخت مخالف ہے کہ ان کے الحاق شدہ یونٹس میں کسی بھی ملک کی حکومت کی دخل اندازی ہو۔ لیکن عجیب بات ہے کہ وہ پاکستان کرکٹ بورڈ جو اپنے آپ کو آزاد منوانے کی ہر وقت تگ و دو میں لگارہتا ہے اس میں اس قسم کی آسامی کو اس طرح کے افراد سے ’پر کرتی ہے۔ اس کے علاوہ گود لیے ہویے سابق چئیرمین کے چہیتے عون زیدی کو بھی بہی خواہوں نے یہ ہی مشورہ دیا ہے کہ وہ گھر جاکر بیٹھ جائیں تو بہتر ہوگا ورنہ اس طرح قومی بورڈ میں اوپر سے نازل ہونے والے کئی ملازم فارغ کردیے جائیں گے۔ واضح رہے کہ عون زیدی نہ صرف سفارش پر بھرتی کیے گئے بلکہ ان کو کئی بین الاقوامی ٹورز بھی ٹیم مینجمینٹ کا حصہ بنا کر کرائے گئے اور لاکھوں روپے کے ٹی اے ڈ ی اے کے علاوہ گزشتہ سال آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی جیتنے پر جو نقد انعامات تقسیم کیے گئے ان میں عون زیدی کا نام بھی شامل تھا۔ اس کے علاوہ چیف آپریٹنگ آفیسر(سی او او) جیسے اہم عہدہ بھی توقع کی جارہی ہے کہ وہ کسی اور کو ملے گا اور کئی عرصے سے براجمان سبحان احمد سے زبردستی استعفی لے لیا جائے گا۔ اس کے علاوہ عثمان اللہ والا جو جنرل مینجر انٹرنیشنل ہیں کی بھی چھٹی متوقع ہے۔ یہ سب اکھاڑ پچھاڑ اپنی جگہ لیکن کپتان کو جوَ اب امپائر کی پوزیشن پر ہیں پاکستان کرکٹ بورڈ کے لاہور میں واقع ہیڈ کوارٹر میں کلین اپ آپریشن ناگزیر ہوگا جب ہی اصلاحات کا نفاذ ممکن ہوگا جو ان کی اولین ترجیح ہے۔ عمران خان ڈومیسٹک کرکٹ میں ڈیپارٹمنٹٹس کے مخالف رہے ہیں اور شہروں کی کرکٹ ایسوسی ایشنز کو مراعات کے علاوہ ان کومضبوط کرنے کے خواں ہیں۔ تاہم یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کیا وہ تنخواہیں اور مراعات جو ڈیپارٹمنٹس دے رہے تھے ایسوسی ایشنز کے پاس اتنا بجٹ ہوگا کہ وہ کھلاڑیوں کو حوصلہ افزا معاوضہ دے سکیں ۔ نیز وہ کھلاڑی جنہیں کنٹریکٹ کی بنیاد پر تنخواہ یا معاوضہ دیا جارہا ہے اس پر کچھ حلقوں کے تحفظات ہیں کہ جس ملک میں اتنی بے روزگاری ہو اور بین الاقوامی طور پر قرضوں میں ڈوبا ہوا ہو اس ملک کے ایک کھیل کے چند کھلاڑیوں اور مینجمنٹ کو لاکھوں روپے تنخواہ کے مد میں دیے جائیں قوم سے ناانصافی ہے ۔ معاوضہ ڈومیسٹک کرکٹ کے حوالے سے سابق کرکٹرز کا کہنا ہے کہ اگر اس میں بہتری لانی ہے تو سربراہ کے طور پر عمر رسیدہ سابق کرکٹرز کو لینے کے بجائے ان کرکٹرز کا انتخاب کیا جائے جو موجودہ دور میں ان رموز سے واقف ہو ں جو دنیائے کرکٹ کی نامور ٹیموں نے اختیار کی ہیں اور وہ مسلسل کامیابی کی طرف گامزن ہیں۔ ان میں آسٹریلیا ، نیوز ی لینڈ ، انگلینڈ اور جنوبی افریقا کی ٹیمیں شامل ہیں۔قائم مقام چئیرمین نے ذاکر خان کو ڈائریکٹر انٹرنیشنل مقر ر کردیا جب کہ اس کا اختیار ان کو حاصل نہیں ۔اس کے علاوہ نئے چیلنجز میں سابق چئیرمین نجم سیٹھی کے ان اقدامات کو جاری یا نہ جاری رکھنے کا فیصلہ بھی شامل ہے جن میں سرفہرست کراچی میں نیشنل اسیٹیڈیم کی تزئین و آرائش سمیت پویلین کی چھت وغیرہ کو ازسر نو بنانے کا کام شامل ہے ۔کئی ماۃ قبل محض ایک فیز تک مکمل ہونے کے بعد وہاں ترقیاتی کام روک دیا گیا تھا جبکہ دوسرا فیز کب شروع ہوگا اس کا کسی کے پاس جواب نہیں، یاد رہے کہ کنٹریکٹر کی جانب سے مزدوروں کی اجرت میں کٹوتی کا بہت چرچا رہا۔ اس کے علاوہ پاکستان سپر لیگ کے حوالے سے یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ یہ نجم سیٹھی کی پروڈکٹ اور ان کی مکمل اجارہ داری ہے، وہ خود بھی شروع سے کوشش میں رہے کہ پی ایس ایل کو کمپنی کا درجہ مل جائے اور وہ اس کے لیے آخر وقت تک سنجیدہ بھی رہے۔ کچھ ہفتے قبل کراچی میں ہونے والی پی سی بی ایورڈ تقریب میں وہ بہت افسردہ نظر آرہے تھے اور ان کی تقریر میں جوش نہیں تھا بلکہ خدشات تھے کہ آئندہ آنے والے 3سے 4ماہ پاکستان کرکٹ بورڈ اور قومی کرکٹ کے حوالے سے بہت اہم ہیں اگر سیٹ اپ کو چھیڑا گیا تو کافی نقصان ہوگا اور ایک مرتبہ پھر ترقی کا پہیہ رک جائے گا۔ کر کٹ کے حلقوں میں اس بات کو مانا گیا ہے کہ مجموعی طور پر نجم سیٹھی کا جتنا بھی عرصہ سربراہ قومی بورڈ رہا ٹیم کی کارکردگی کے حوالے سے بہت زبردست اور کامیاب رہا۔ تاریخ میں ضرور وہ اپنے نام کو سنہرے الفاظ میں دیکھ پائیں گے۔ جہاں تک نئے چئیرمین کا تعلق ہے ان کا فیملی بیک گراؤنڈ بہت مضبوط ہے اور آئی سی سی کے چئیرمین کا تجربہ پاکستان کرکٹ بورڈ میں ایک اثاثے سے کام نہ ہوگا تاہم بیورکریسی کلچر، آمدنی کا بے جا استعمال، اقرا پروری، سسٹم کو زنگ لگانے والے وہ چند بے کار پرزوں کی جگہ نئے خون کو شامل کرنے سے قومی کرکٹ کے وقار میں اضافہ اور خود سربراہ پی سی بی کا وزن بڑھ سکتا ہے۔ بہرحال اس موقع پر نئے چیئرمین کا انتخاب ہی تبدیلی کا پیش خیمہ بنے گا اور پاکستان کی قوم جس طرح کپتان عمران خان سے امیدیں لگائے بیٹھی ہے ملک میں کرکٹ کے چاہنے والے احسان مانی کی طرف نظر لگائے بیٹھے ہیں۔اللہ کرے ملک، کرکٹ اور وہ کامیاب ہوں ۔