حسن انتخاب

270

 

 

سردار عثمان خان پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے ہیں، ان کے انتخاب کو وزیراعظم عمران خان کا حسن انتخاب قرار دیا جارہا ہے اور دلیل یہ دی جارہی ہے کہ سردار عثمان بزدار کا تعلق جنوبی پنجاب کی ایک پسماندگی تحصیل تونسہ شریف سے ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ علاقے کی پسماندہ ان کی اہلیت بن گئی ہے مگر اس بات پر کوئی غور کرنے پر آمادہ نہیں کہ سردار عثمان خان کا تعلق پسماندہ علاقے سے ضرور ہے مگر ان کا خاندان پسماندہ نہیں ہے۔ ان کا تعلق زمیندار گھرانے سے ہے، وہ اچھے قبیلے کے سردار ہیں، ایک معروف وکیل ہیں، انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کی زمین یورینیم کی دولت سے مالا مال ہے، انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کی زمین سے برآمد ہونے والے یورینیم نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بننے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
مخالفین کا کہنا ہے کہ ان پر قتل کا مقدمہ بھی چلتا رہا ہے اور انہوں نے دیت دے کر اس مقدمے سے جان چھڑائی تھی۔ حامیوں کا کہنا ہے کہ قتل کا مقدمہ سیاسی تھا، سوال یہ ہے کہ مقدمہ سیاسی تھا جعل سازی پر مبنی تھا تو پھر دیت دینے کا کیا جواز ہے؟۔ قابل غور بات یہ بھی ہے کہ سردار عثمان بزدار کے والد محترم تین بار رکن اسمبلی رہے ہیں اور وہ خود دو بار ناظم رہے ہیں مگر اپنے علاقے کی پسماندگی کو دور کرنے میں کوئی اقدام نہیں کیا۔ حتیٰ کہ ان کے علاقے میں بجلی اور گیس بھی نہیں اس پس منظر میں یہ سوال بڑی اہمیت اختیار کرلیتا ہے کہ کئی بار رکن اسمبلی منتخب ہونے والے نے اپنے علاقے کی پسماندگی دور کرنے میں دلچسپی کیوں نہیں لی۔ دو بار ناظم منتخب ہونے والے نے کوئی ترقیاتی کام کیوں نہیں کرایا، جو لوگ اپنے علاقے کی کوئی خدمت نہ کرسکے وہ پنجاب کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟۔
تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والوں کا اصرار ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ایک پسماندہ علاقے کے غریب آدمی کو وزیر اعلیٰ پنجاب نامزد کرکے تبدیلی کے وعدے کو عملی جامہ پہنا دیا ہے اور اب ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے کے وعدے کو پورا کریں گے۔ اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان قابل تحسین ہیں مگر یہ تصویر کا ایک رُخ ہے، دوسرا رُخ یہ ہے کہ ان کے اقدام سے تحریک انصاف کے لیے بائیس سال سے جدوجہد کرنے والے کارکنوں کو حق تلفی کی اذیت دی ہے کیوں کہ سردار عثمان خان کی تحریک انصاف سے وابستگی جمعہ، جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ہر برات میں جمعہ خانوں کی کمی نہیں ہوتی مگر اسے حق تلفی کا جواز تو نہیں بنایا جاسکتا۔ اسے سیاسی حق تلفی کا نام دینا بہت بڑی ناانصافی ہے کیوں کہ سیاسی حق تلفی میں بھی بد دیانتی کا پہلو بہت نمایاں ہوتا ہے گویا بد دیانتی اور حق تلفی کی ابتدا ہوچکی ہے۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ سردار عثمان خان حکومتی گاڑی کی اسٹیپنی ہیں، اصل پہیہ پنکچر زدہ ہے، پنکچر لگنے کے بعد اسٹیپنی اتارلی جائے گی اصل پہیوں میں ایسے ایسے نام لیے جارہے ہیں جو ناقابل یقین ہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ بُری ذہن افواہوں کی کوکھ سے ہی جنم لیتی ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو سیاسی برگد بہت پسند ہیں، بھٹو مرحوم کے مداح ہیں، بھٹو مرحوم نے غلام مصطفی کھر کو زیراعلیٰ پنجاب بنایا تھا مگر جب کھر نے برتر بننا چاہا تو ان کی جگہ پر ایک نامی گرامی مصور حنیف رامے کو لے لائے اور جب رامے مرحوم نے سیاسی مصوری کا آغاز کیا تو ان کا اختتام کردیا گیا اور پھر نواب صادق قریشی کو سیاسی بساط پر آگے کردیا گیا۔ شاید اب یہی کھیل عمران خان بھی کھیلنا چاہتے ہیں۔ تحریک انصاف اس پروپیگنڈے پر بڑی محنت کررہی ہے کہ وہ سیاسی انتقام کی قائل نہیں مگر برسراقتدار آتے ہی سیاسی انتقام کا آغاز کردیا گیا ہے۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کا سابق کیپٹن صفدر، مریم نواز اڈیالہ جیل میں ہیں مگر ان کا نام ای سی ایل میں ڈال کر سیاسی انتقام کی ابتدا تو کردی گئی ہے۔ یہ کہیں کسی خوف کا ردعمل تو نہیں، آخر اس کی ضرورت کیا تھی اس امکان کو بھی یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ اڈیالہ جیل کا دروازہ کھلنے اور بریت کا امکان پیدا ہوگیا ہوگا یا۔۔۔
محبت اور نفرت کے علاوہ
جہاں میں خیر و شر کچھ بھی نہیں