بلدیہ کراچی کی افسوسناک صورت حال

272

 

 

بلدیاتی نظام ’’خوبصورت ستارے‘‘ اور سندھ حکومت۔ کے عنوان سے لکھے گئے کالم میں باغات کے معطل ڈائریکٹر جنرل کے بارے میں اس انکشاف کے بعد کہ موصوف معطل ہونے کے باوجود بدستور خدمات انجام دے رہے ہیں، یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وہ مختلف اہم فائلوں پر دستخط کررہے ہیں بلکہ بالکل اسی طرح خدمات انجام دے رہے ہیں جیسے وہ حکومت کی جانب سے معطل کیے ہی نہیں گئے۔ صاحب ذکر ایس سی یو جی یعنی سندھ کونسلز یونیفائیڈ گریڈ سروسز کے افسر ہیں۔ انہیں حکومت سندھ ہی بحال کرسکتی ہے اور ان کا تقرر کرسکتی ہے۔ واقف حال معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ ’’خوبصورت ستارے‘‘ یا بیوٹی فل اسٹار کی خصوصی روشنی میں گریڈ 19 کے معطل افسر سروس رولز ہی کو بھلا بیٹھے۔ مگر دھڑا دھڑ مختلف ترقیاتی و دیکھ بھال کے کاموں کے بلوں کو کلیئر کرنے میں مصروف ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مذکورہ افسر ’’افق‘‘ کی جمع ہونے کے باوجود بنا خوف ’’قائد اعظم کی مختلف رنگوں کی کاغذی تصاویر‘‘ جمع کرنے پر توجہ دیے جارہے ہیں، کیوں کہ انہیں اطمینان ہے کہ سرکاری ریکارڈ میں تو وہ معطل ہیں۔ کے ایم سی کے ڈائریکٹر جنرل باغات کی اسامی پر غیرقانونی خدمات انجام دینے والے آفاق مرزا سمیت چھ ساتھی افسران و اہل کاروں کے خلاف کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر پارکس اخلاق احمد نے 12 مئی 2017 کو مقدمہ درج کرایا تھا۔ جس کے بعد سیکرٹری بلدیات کے حکم سے انہیں معطل بھی کردیا گیا۔ مگر ان کی معطلی صرف کاغذات تک محدود ہے۔ کرپشن اور بے قاعدگی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوسکتی ہے۔ حیرت تو یہ ہے کہ نہ سندھ حکومت اس خلاف قانون کارروائی پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں جب کہ اینٹی کرپشن اور نیب حکام لاعلم بنے ہوئے ہیں۔
بلدیہ عظمٰی کراچی میں ماضی میں بھی تاریخی نوعیت کی کرپشن ہوچکی ہے۔ 90 کی دہائی میں سابق ایڈمنسٹریٹر بریگیڈئر ریٹائرڈ عبدالحق نے بدعنوانی کے الزامات میں انکوائری کے بعد چھ اعلیٰ افسران کو معطل بھی کردیا تھا ایسا کرکے انہوں نے اپنے تئیں بدعنوان افسران کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی تھی مگر کیا کریں اس وقت کے کراچی پرست صوبائی مشیر بلدیات کا جس نے اپنے حاصل اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھا کر ان سب ہی کو ایک سال بعد بحال کردیا۔ معطلی تو کے ایم سی میں معمولی بات ہے یہاں تو برطرف کیے جانے والے افسران کی 5 دس سال آرام کرکے نہ صرف ملازمتوں پر بحال ہونے کی مثالیں موجود ہیں بلکہ اپنی برطرفی کے دوران کے عرصے کی تنخواہیں بھی وصول کرنے کا ریکارڈ بھی رکھتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ’’اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی‘‘ کے مترادف یہ کہا جاسکتا ہے کہ کے ایم سی کا کوئی نظام بھی سیدھا نہیں ہے۔ مگر یہ سب کچھ ٹیڑھا جون 2005 کے بعد ہوا ہے۔ جب سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کا دوسرا چار سالہ دور شروع ہوا۔ (اس دور کے سٹی ناظم مصطفی کمال تھے جو ان دنوں ’’پاک سر زمین پارٹی‘‘ کے سربراہ ہیں)۔ اس دور میں برطرف اور معطل ہونے والے کرپٹ عناصر بحال ہونا شروع ہوئے اور بغیر کسی اصول و ضوابط کے براہ راست تقرریاں ہوئیں جو ہزاروں کی تعداد سے کم نہیں تھیں۔ خیر بات کی جارہی ہے ان دنوں کے ایم سی میں کیا کچھ ہورہا ہے۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ موجودہ منتخب بلدیاتی دور بلدیہ عظمٰی کراچی کا بدترین دور ہے۔ شاید اس لیے نہیں کہ میئر کا عہدہ سنبھالنے والے وسیم اختر نے جیل سے آکر اپنی ذمے داریاں سنبھالی تھیں بلکہ اس لیے بھی کہ اس دور میں جو کچھ ہورہا ہے اس کی مثال ماضی میں بھی نہیں ملتی۔ بلدیاتی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جس طرح منتخب کونسل کے دور میں کے ایم سی چل رہی ہے اس طرح کی خراب صورت حال تو غیر منتخب کونسل یعنی ایڈمنسٹریٹرز کے دور میں بھی نہیں تھی۔ معطل افسر کا بغیر بحالی کے فرائض انجام دینا ہی نہیں اس دور میں تو چند مخصوص افسران کو دو، دو یا اس سے زاید عہدوں کے چارج دے کر کام لیا جارہا ہے۔ 26 محکموں پر مشتمل کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے سینئر ڈائریکٹرز اور ڈائریکٹرز کے عہدوں پر من پسند افسران کا راج ہے۔ ان افسران میں ایسے بھی ہیں جنہیں اپنے محکمے کا درست نام کے ہجے بھی نہیں آتے۔ اہم محکموں میں جونیئر اور کم تعلیم یافتہ افراد جو کسی طرح افسر بن چکے تعینات کردیے گئے۔ میونسپل پبلک ہیلتھ کے ڈائریکٹر کی اسامی پر پرائمری اسکول ٹیچر بھرتی ہونے والے کو قائم مقام ڈائریکٹر کی ذمے داری دیدی گئی ہے۔ اسی طرح محکمہ لینڈ میں بھی گریڈ 17 کے افسر کو ڈائریکٹر کا چارج دیا گیا ہے۔ محکمہ لینڈ اینٹی انکروچمنٹ میں جس ’’خوشخبری‘‘ سنانے والے گریڈ 18 کے افسر کے پاس سینئر ڈائریکٹر، ڈائریکٹر ڈسٹرکٹ ایسٹ اور ایڈیشنل ڈائریکٹر کا چارج ہے ان کے بارے میں بھی یہ معلوم ہوا ہے کہ وہ کئی سال بعد رواں منتخب بلدیہ کا دور شروع ہونے کے بعد اہم منتخب شخصیت کی آشیرباد سے کے ایم سی میں نمودار ہوئے اور اینٹی انکروچمنٹ میں چھا گئے۔ وہ کم و بیش دس سال کہاں رہے کسی کو نہ تو پتا ہے اور نہ ہی کسی نے ان سے پوچھنے کی ضرورت محسوس کی۔ تین افسران کی نوکری اکیلے کرنے والے سے بھلا یہ کون پوچھ سکتا ہے۔ مگر ایک ہی افسر کو تین ذمے داریاں دیے جانے سے بلدیہ عظمٰی کے میئر کے اختیارات واضح ہوجاتے ہیں۔
’’خوبصورت ستارے‘‘ کی بدولت بلدیہ عظمٰی کے چمکنے کے بجائے کرپٹ افسران خوب چمک و چہک رہے ہیں۔ میئر کے دفتر میں کوئی ریحان صاحب ہیں وہ کس ادارے کے ملازم ہیں اور کس گریڈ کے ہیں کسی کو نہیں پتا بس سب یہی جانتے ہیں کہ یہ میئر کے ایڈوائزر ہیں اور ان کے بغیر کوئی فائل میئر کی میز تک بھی نہیں پہنچ سکتی۔ گو کہ یہ میئر سیکرٹریٹ میں ’’ٹرانزٹ اسٹیشن‘‘ کے طور پر موجود ہیں۔ خیال ہے کہ چوں کہ میئر کو اختیارات اور فنڈز کی کمی کا سامنا ہے اس لیے شاید یہ صاحب میئر کی مدد کرتے ہوں گے!۔بلدیہ عظمٰی میں میئر کس قدر بااختیار ہے اس کا اندازہ تو اس طرح بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ تبادلے و تقرر ادارے کے چیف ایگزیکٹو افسر کی مرضی و منشاء کے بغیر ہی کردیا کرتے ہیں۔ عیدالاضحیٰ سے صرف دو روز قبل میئر کے حکم پر گریڈ 17، 18 اور 19 کے 13 افسران کے تبادلے براہ راست کردیے گئے
چوں کہ ان تبادلوں کا اختیار سندھ گورنمنٹ کو ہے اس لیے میٹروپولیٹن کمشنر نے ان تبادلوں و تقرریوں کی منظوری نہیں دی تھی۔ مگر میئر کی براہ راست منظوری بلکہ حکم سے یہ تبادلے کردیے گئے اور ان پر عمل درآمد بھی شروع کردیا گیا۔ میئر کمزور اور بے اختیار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر سب کچھ باآسانی کیے جارہے ہیں سندھ گورنمنٹ بااختیار مگر اس کے وزیر اور افسران تماش بین بنے ہوئے ہیں۔
انتہائی افسوسناک اطلاعات ہیں کہ منتخب بلدیاتی نمائندوں کی موجودگی کے باوجود محکمہ طب، صحت، کھیل و ثقافت، چڑیا گھر، سفاری پارک اور عوامی سہولتوں سے متعلق دیگر محکموں کے بجٹ کو خلاف اصول محکمہ انجینئرنگ میں منتقل کرکے مسلسل استعمال کیا جارہا ہے جب کہ فنڈز کی کمی کا رونا بھی رویا جارہا ہے۔ کسی محکمے کے منتخب چیئرمین میں اتنی بھی جرات نہیں ہے کہ وہ اس طرح کی خلاف ضابطہ کارروائیوں پر مزاحمت کرے۔ جب اس طرح کے کٹھ پتلی عوامی نمائندے ہوں گے تو عوامی ادارے تباہ و برباد ہی ہوں گے۔ محکمہ فائربرگیڈ کے ایم سی کا بڑا محکمہ ہے اس میں بے قاعدگیاں مسلسل جاری ہیں۔ مخصوص ٹھیکیدار فرم سے سالانہ 55 کروڑ روپے کا فائر ٹینڈرز اور دیگر گاڑیوں کی مرمت کا ٹھیکہ اعتراض کے باوجود چل رہا ہے مگر نتیجہ صفر ہے۔ 40 فائر ٹینڈرز کی جگہ صرف 8 فائر ٹینڈرز قابل استعمال رہ گئے۔ ٹھیکیدار فرم کو ادائیگی روکنے کی بھی سفارش کی گئی مگر میئر نے کوئی بھی کارروائی نہیں کی بلکہ ادائیگیوں کی ہدایت کردی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس میئر کے خلاف اربوں روپے کی کرپشن کا الزام ہو اور نیب تحقیقات کررہا ہو۔کیا اس پر مزید اعتماد کیا جاسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب سندھ کی پیپلز پارٹی اور وفاق کی تحریک انصاف کی حکومتوں کو بھی دینا ہوگا؟