سرسید اور نظریۂ فطرت (2)

490

سرسید نے مغرب سے نظریۂ فطرت مستعار تو لے لیا مگر انہوں نے یہ دیکھنے کی کوشش نہیں کی کہ خود مغربی فلسفے کی روایت میں لفظ فطرت کا کیا مفہوم رہا ہے؟
سقراط مغربی فلسفے کی روایت کی عظیم ترین ہستی ہے۔ اس کی اہمیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس کے بغیر افلاطون کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ افلاطون کی اہمیت یہ ہے کہ ممتاز مغربی فلسفی وائٹ ہیڈ نے کہا ہے کہ پورا مغربی فلسفہ افلاطون کی فکر کے حاشے کے سوا کچھ نہیں۔ افلاطون کی ایک اہمیت یہ ہے کہ اس نے اپنے مکالمات کے ذریعے سقراط کی فکر کو دنیا تک منتقل کیا۔ افلاطون کی ایک اور اہمیت یہ ہے کہ اس کے بغیر ارسطو کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ وہ ارسطو‘ جسے فلسفے کی روایت میں معلم اوّل کا خطاب دیا گیا۔ سقراط‘ افلاطون اور ارسطو کی عظمت یہ ہے کہ فکری روایت میں وہ گزشتہ دو ہزار سال سے مسلسل زیر بحث ہیں۔
سقراط کا بنیادی مسئلہ عسکری صاحب کے بقول خیر و شر کا فرق اور خیر کا حصول ہے۔ کارنفرڈ نے تو سقراط کے سلسلے میں یہ تک کہہ دیا ہے کہ اس نے اس فلسفے کا رخ کائنات اور فطرت سے ہٹا کر انسانی ہستی اور انسانی معاشرے کی جانب پھیر دیا۔
سقراط کے سلسلے میں یہ بات طے ہے کہ وہ مادہ پرستی سے بری تھا۔ افلاطون نے سے ’’صاحبِ دل‘‘ کہا ہے۔ وہ روح کے لافانی ہونے پر ایمان رکھتا تھا اور حیات بعد الموت پر بھی۔ اس کا عقیدہ تھا کہ ہماری حسیّات ہمارے فہم کی راہ میں حائل ہیں اور ہمیں حقیقت عظمیٰ تک نہیں پہنچنے دیتیں لہٰذا حقیقی علم تو اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب روح جسم سے الگ ہوتی ہے۔ حسی وجود عقلی وجود کے مشابہ ہے اس کے باوجود حسی اور عقلی وجود کے درمیان ایک خلیج حائل ہے جس کو روح محبت کے ذریعے ختم کرتی ہے‘ ان اصولوں سے ظاہر ہے کہ سقراط کوئی ایسی بات نہ کہتا تھا تھا جو مذاہب نہ کہتے ہوں۔ (سرسید اور حالی کا نظریۂ فطرت۔ از ڈاکٹر ظفر حسن۔ صفحہ 130-31)
عسکری صاحب بتاتے ہیں کہ افلاطون کے فلسفے میں ہمیں مندرجہ ذیل مسائل پر بحث ملتی ہے:
-1 عین بذات خود۔
-2 مادے پر عین کا عمل یعنی فطرت۔
-3 عین بہ حیثیت فطرت کی انتہائی حالت یا خیر برتر کے۔
افلاطون کے فلسفے میں موجود ان تین بحثوں میں سے دوسری بحث کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ فطرت خود کچھ نہیں بلکہ عین مادے پر عمل کرتا ہے تو فطرت وجود میں آتی ہے یا مادہ اپنے امکانات ظاہر کرتا ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ افلاطون کا عین ایک غیر فطری حقیقت ہے اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ تمام موجودات کی ہستی مستعار ہے اور یہ ہستی موجودات کو ایمان سے حاصل ہوتی ہے۔ تصورات میں بھی ایک درجہ بندی ہے جو ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف جاتی ہے یہاں تک کہ ہم برتر تصور تک پہنچ جاتے ہیں جو سب سے بالا اور سب سے قوی ہے۔ یہ خیر کا تصور ہے۔ تصورات انفرادی ہستی بھی رکھتے ہیں۔ خالق کا تصور بطور ایک صناع کے ہے جو ایک مثال یا نمونے کا تتبع کر رہا ہے۔ یوں خدا اور عین یکجان ہوگئے۔ عسکری صاحب کے مطابق افلاطون کے فلسفے سے یہ مطلب برآمد ہوتا ہے کہ مادی دنیا (یعنی سرسید کی فطرت) اپنے اندر کوئی حقیقت نہیں رکھتی بلکہ حقیقت مادے سے ماورا ہے اور مادی اشیا (یعنی فطرت بھی) برتر حقیقت کا محض عکس ہیں۔ (سرسید اور حالی کا نظریہ فطرت۔ از ڈاکٹر ظفر حسن۔ صفحہ 131-132)
فطرت کے تصور کے سلسلے میں ارسطو کی اہمیت باقی یونانی فلسفیوں سے زیادہ ہے۔ عسکری صاحب کے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف تو ازمنہ وسطیٰ یعنی Middle ages میں بیش تر عرب اور عیسائی فلسفیوں نے ارسطو کے تصورات کو بنیاد بنا کر اپنے نظریات قائم کیے۔ دوسری طرف یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ جدید سائنس اور فکر کے ڈانڈے ارسطو سے ملتے ہیں۔ عام طور پر تاریخ فلسفے میں یہ مفروضہ بتایا گیا ہے کہ سارے فلسفیوں کو دو جماعتوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ایک طرف افلاطون کے مقلد اور دوسری طرف ارسطو کے مقلد۔ منشا یہ ہے کہ افلاطون اور ارسطو انسانی ذہن کے دو متضاد پہلوؤں کی نمائندگی کرتے ہیں جن میں مفاہمت نہیں ہوسکتی۔ اس کے برخلاف رینے گینوں کہتے ہیں کہ بنیادی طور پر افلاطون اور ارسطو کا نقطۂ نظر ایک ہی ہے بس فرق یہ ہے کہ افلاطون نے تنزیہی نقطۂ نظر اختیار کیا اور ارسطو نے تشبیہی نقطہ نظر۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ارسطو نے فلسفے کی اقسام بیان کرتے ہوئے سب سے پہلا درجہ مابعد الطبیعات یعنی Mate physics کو دیا ہے۔ وہ کہتا ہے ’’علم الٰہی تو صرف خدا ہی کا حصہ ہے۔‘‘
طبیعات یعنی physics کے بارے میں وہ کہتا ہے ’’یہ ایک قسم کی حکمت ہے مگر اس کا درجہ اوّلین نہیں۔‘‘
عسکری صاحب کے مطابق عرب فلسفیوں کے مقابلے میں ارسطو کا تصور فطرت کچا ہے کیوں کہ ارسطو وار الوراء تک نہیں پہنچ سکا۔ اپنی کتاب مابعد الطبیعات (Mata physics) میں اس نے وجود سے بحث کی ہے اور وہ علم الوجود کو فلسفے کی اعلیٰ ترین شاخ سمجھتا ہے حالاں کہ صرف اسلام ہی نہیں مشرق کی ساری روایتوں میں علم الوجود حقیقی مابعد الطبیعات کا محض دیباچہ ہے کیوں کہ مابعد الطبیعات اس حقیقت سے بحث کرتی ہے جو وجود اور عدم دونوں سے ماورا ہے لیکن مغرب کے اس تصورِ فطرت کے مقابلے پر جس کے سرسید قائل تھے ارسطو کے تصور فطرت کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ ارسطو کے یہاں فطرت یا مادہ نہ تو حقیقت عظمیٰ سے الگ کوئی شے ہے نہ وجود مطلق سے الگ اس کی کوئی ہستی ہے۔ حسین نصر نے صاف کہا ہے کہ مادے کا جدید تصور ڈیکارٹ سے شروع ہوا ہے بلکہ اٹھارہویں صدی میں قائم ہوا۔ یونانی فلسفی جو جدید مغرب کے بنیاد گزاروں میں شمار کیے جاتے ہیں‘ اس تصور سے ناواقف تھے۔
ارسطو کے نزدیک اعلیٰ ترین حقیقت وجود مطلق یا Pure Being ہے۔ وجود مطلق سب سے پہلے اپنے آپ کو دو شکلوں میں ظاہر کرتا ہے ایک ماہیت یا Essence اور دوسری مادہ یعنی Substance عرب فلسفیوں نے ان دونوں چیزوں کے لیے صورت مادہ کے الفاظ استعمال کیے ہیں اور ازمنہ وسطیٰ یا Middle Ages کے فلسفیوں نے اس ضمن میں Form اور Matter کی اصطلاحیں استعمال کی ہیں۔ یہاں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ارسطو کا مادہ (Matter) وہ چیز نہیں جسے موجودہ سائنس میں مادہ کہا جاتا ہے بلکہ ارسطو کا مادہ وہ حقیقت ہے جس کا حواس کے ذریعے ادراک نہیں کیا جاسکتا۔ اس طرح صورت بھی حسیات یا Senses سے ماورا ہے اور معقولات (یعنی عقل سے پیداء ہونے والا علم) میں شامل ہے۔ ارسطو کے نزدیک مادے کی دو قسمیں ہیں ایک مادہ اوّلین یا Materia Prima ہے جس سے پوری کائنات بنی۔ دوسرا مادہ ثانوی یا Materia Seconda ہے جس سے انفرادی مظاہر بنے۔ ارسطو کہتا ہے کہ کائنات کی ہر چیز انہی دو اصولوں سے مل کر بنتی ہے۔ اگر ہم لفظ ’’اصول‘‘ کو ٹھیک طرح سے نظر میں رکھیں تو ارسطو کے نظریات کے بارے میں کوئی غلط فہمی پیدا ہونے کا امکان نہیں۔ صورت اور مادہ کوئی ٹھوس چیز نہیں بلکہ رینے گینوں کے بقول ’’صورت‘‘ فاعلی اصول یا Active Principle کا دوسرا نام ہے اور مادہ انفعالی اصول یا Passive Principle کا۔ بہ الفاظ دیگر شکل قبول کرنے کی صلاحیت کو مادہ کہتے ہیں۔ (سرسید اور حالی کا نظریۂ فطرت۔ از ڈاکٹر ظفر حسن۔ صفحہ 133-134-135)
آپ نے دیکھا سرسید اپنی تحریروں میں مغرب‘ مغرب اور فطرت‘ فطرت تو بہت کرتے ہیں یہاں تک کہ انہوں نے مغرب کے تصورِ فطرت کے مطابق قرآن مجید فرقان حمید کی تشریح و تعبیر کر ڈالی مگر انہیں مغربی فلسفے کی روایت کے تناظر میں لفظ فطرت کی الف‘ ب بھی معلوم نہ تھی۔ انہیں یہ تک پتا نہیں تھا کہ مغرب کے تین عظیم ترین فلسفیوں کی فکر میں فطرت کا کیا مطلب تھا؟ اب صورت یہ ہے کہ سرسید اسلام کی اصل سے آگاہ نہ تھے اور جو اسلام مستند روایات کے ذریعے سرسید تک پہنچا تھا اس پر سرسید کا ایمان نہیں تھا۔ دوسری طرف انہوں نے مغربی فکر کے ذریعے اسلام کو سمجھنے کی کوشش کی مگر وہ مغربی فکر کی بنیادوں سے بھی آگاہ نہ تھے اس کے باوجود وہ ڈیڑھ سو سال سے برصغیر میں اسلامی فکر کے ’’امام‘‘ اور مغربی فکر کے ماہر بنے کھڑے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ لاکھوں‘ کروڑوں لوگ ان کی ’’امامت‘‘ اور ’’مہارت‘‘ پر ایمان لائے ہوئے ہیں۔ اصول ہے جیسی روح ویسے فرشتے۔ جیسے سرسید ویسے ان پر ایمان لانے والے۔ مگر سوال تو یہ بھی ہے کہ سرسید اسلامی فکر کے امام اور مغربی فکر کے ماہر نہیں تھے تو کیا تھے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اسلامی اور مغربی فکر کے اسٹیج پر سرسید کی حیثیت ایک علمی Cat Walker سے زیادہ نہیں۔