صرف نظام بدلنا کافی نہیں۔۔۔

243

وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب نے میڈیا سے کہا ہے کہ تین ماہ تک تنقید سے گریز کریں۔ ان کی بات درست ہے حکومت سنبھالنے اور کام کے نتائج آنے میں اس سے بھی زیادہ وقت لگتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ میڈیا کو اس کے کام سے روکنے کی بات کرنا بھی درست نہیں۔ میڈیا کا کام تو چوبیس گھنٹے سارا سال کا ہے۔ ہاں نئی حکومت ہونے کے ناتے اس کو توجہ دلائی جانی چاہیے تنقید ابھی قبل از وقت کہلائے گی۔ حکومت چلانا اور اپوزیشن کرنا دو مختلف باتیں ہیں پی ٹی آئی اب حکومت میں آگئی ہے اور اتنی زوردار طریقے سے آئی ہے کہ تین صوبوں کی حکومتیں بھی اس کے پاس ہیں۔ لیکن اگر میڈیا ان کے اقدامات پر بروقت توجہ نہیں دلائے گا تو تین ماہ میں بہت سارا پانی پلوں کے نیچے سے نکل چکا ہوگا۔ مثال کے طور پر عمران علی شاہ کا تھپڑ مارنا، فیاض الحسن چوہان کا گالیاں دینا اور بد تہذیبی کرنا یا خاور مانیکا اور ڈی پی او پاکپتن کا معاملہ اگر میڈیا ان معاملات پر فوری توجہ نہ دلاتا تو عمران خان کو ایکشن لینے کا موقع کیسے ملتا۔ وہ فیاض الحسن چوہان کی کس طرح سرزنش کرتے اور شیخ رشید صاحب کا معاملہ، میڈیا نے ان معاملات کو اٹھایا تو عمران خان نے نوٹس لیا۔ اب وزیراعظم نے پنجاب کابینہ کے اجلاس میں خطاب کے دوران صوبے کا بلدیاتی نظام بدلنے کا حکم جاری کیا ہے۔ ابھی یہ واضح تو نہیں کہ بلدیاتی نظام میں کیا تبدیلیاں ہوں گی لیکن یہ بات تو مرکزی کابینہ کے سامنے بھی آچکی عمران خان صاحب کی پہلی تقریر میں بھی کہی جاچکی اب مسئلہ یہ ہے کہ میڈیا تین ماہ کے لیے خاموش رہے تو ایک چلتے ہوئے نظام کی جگہ دوسرا نظام لے لے گا اور جب میڈیا خاں صاحب کی اجازت سے تین ماہ بعد بولے گاتو اس وقت کہا جائے گا کہ ابھی نیا نظام ہے اس پر کوئی بات نہ کی جائے اسے تین ماہ تو دیے جائیں۔ لہٰذا خان صاحب کی یہ منطق تو قابل قبول نہیں کہ تین ماہ تک کچھ نہ کہا جائے۔ سوال یہ ہے کہ پرانے بلدیاتی نظام میں کیا خرابی ہے اور اسے کیوں بدل جانا چاہیے کیا اس پر کوئی مشاورت ہوئی ہے؟ یہ جنرل پرویز مشرف کا دور تو نہیں کہ اس کو جو نظام پسند آیا اس کو رائج کردیا۔ اسمبلی میں موجود اور پارٹیوں سے مشاورت ضروری ہے پرانے نظام کی خامیوں کو دور کرکے بھی بہتر کیا جاسکتا ہے۔ لیکن کیا نظام بدلنے سے کرپشن ختم ہوجائے گی۔۔۔؟؟ خان صاحب نے کہا ہے کہ پنجاب سے کرپشن کا خاتمہ بڑا چیلنج ہے۔ ان کے بقول پنجاب میں پہلے کرپٹ لوگوں کی حکومت تھی۔ وہ انہوں نے تبدیل کردی ہے۔ تو پھر اب کرپشن کا کیا سوال؟؟ ہاں سوال پیدا ہوتا ہے۔۔۔ کیونکہ جن لوگوں سے کرپشن کی شکایت تھی یا الزام تھا ان کی بہت بڑی تعداد اب نئی حکومت کے ساتھ ہے اس لیے واقعی پنجاب سے کرپشن کا خاتمہ بڑا چیلنج ہے۔ خصوصاً ایسے حالات میں کہ جب کرپشن کرنے والے خود حکومت اور حکمراں پارٹی کا حصہ بن گئے ہوں۔ کرپشن کا خاتمہ بڑا مشکل کام ہوگا۔ ہر قدم پر رکاوٹیں آئیں گی اور ہر کرپشن کو چھپانے کی کوشش کی جائے گی۔ خان صاحب اس کام میں میڈیا ہی آپ کی مدد کرسکتا ہے ورنہ سب کچھ چھپا رہ جائے گا۔