گفتار نہیں کردار

330

 

 

پاکستان میں جتنے سویلین یا عسکری حکمران آئے اور انہوں نے قوم سے خطاب کیا، میری زندگی میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ میں نے پاکستان کے نئے وزیر اعظم عمران خان کو نہ صرف آخیر تک سنا بلکہ نہایت توجہ سے سنا۔ ویسے تو شاید ہی کسی حکمران نے ایسی تقریر کی ہو جس میں اس نے اپنے تئیں کوئی ایسی بات کی ہو جس کو عرف عام میں برا کہا جاسکے لیکن عمران خان کی تقریر کا ایک لفظ بھی ایسا نہیں تھا جس کو یہ کہا جا سکے کہ اسے ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔
عمران خان کی یہ باتیں کہ وہ کسی سے قرض نہیں لیں گے، قوم کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہیے، غربت ختم کردیں گے، پاکستان میں کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں رہے گا اور پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنادیا جائے گا وغیرہ، ایسی ہیں کہ اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ تقریر کا ایک یہ پہلو بھی بہت منفرد تھا جس میں یہ تذکرہ بھی تھا کہ غربت دور کرنے، قرضوں سے نجات حاصل کرنے اور اقتصادی حالات کو بہتر ہی نہیں، مستحکم تر کرنے کا حل اور اس کا طریقہ کار کیا ہوگا۔ عام طور پر مسائل کا ذکر تو سبھی حکمران کرتے رہے ہیں لیکن شاید ہی کسی نے قوم کے سامنے ان مسائل کو حل کرنے کے متعلق اپنی حکمت عملی رکھی ہو۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ عمران خان صاحب نے دیگر سابقہ حکمرانوں کی طرح یہ رونا گانا نہیں گا یا کہ مسائل کے یہ انبار گزشتہ حکمرانوں کے لگائے ہوئے ہیں، ہمیں حکومت ملی تو خزانے خالی تھے، اس سب کرپشن سے ہمارا کوئی تعلق نہیں وغیرہ وغیرہ بلکہ سیدھا سیدھا قوم کو یہ بتا یا کہ مجھے یہ اور یہ کرنا ہے اور پاکستان کی تعمیر نو میں سارے عوام کو میرے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔ قرضوں کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان صاحب کا کہنا تھا کہ اب تک یہ قرضے 128 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں لیکن قوم کو گھبرانا نہیں چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ قوم کو یقین دلایا کہ ہم ان سارے قرضوں کو نہ صرف ادا کریں گے بلکہ یہ سب ہدف قرضہ لیے بغیر اپنے وسائل ہی سے پورا کریں گے۔ ایسا وہ کیسے کر سکیں گے، اس کا ذکر انہوں نے تقریر جاری رکھتے ہوئے بعد میں بتانے کا کہا اور تقریر کے اختتام سے قبل واپس اپنے چھوڑے ہوئے پوائنٹ کی جانب لوٹتے ہوئے بتا بھی دیا۔ اب قرض اتارنے کا طریقہ کار کتنا قابل عمل ہے اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کر سکے گا۔
جیسا کہ عمران خان نے بار بار مدینہ کی ریاست کا تذکرہ کرتے ہوئے آپؐ کا نام لیا، آپ ؐ کے صحابہ کرامؓ کا نام لیا اور قوم کو بتایا کہ انہوں نے کس طرح قوم کو تیار کیا۔ کس کس طرح قوم کو سادگی کا درس دیا اور کس طرح قوم ان کی ہدایات قبول کرتے ہوئے آگے بڑھی اور پھر اس زمانے کی بڑی بڑی سلطنتیں کیسے مٹی کا ڈھیر بن کر رہ گئیں۔ بات بہت واضح اور صاف ہے کہ صحابہ کرام، اسلام قبول کرنے والوں اور پیغمبر اسلام کی قربانیاں اور کردار ہی تھا جس نے مکے کی سرزمین سے چل کر پہلے مدینہ منورہ میں اپنے قدم جمائے اور پھر وہ ساری دنیا پر چھا گئے۔ اب بھی یہ بات طے ہے کہ جب تک مسلمان اس معیار کے مسلمان نہیں بنیں گے، وہی طرز زندگی نہیں اپنائیں گے، سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ نہیں کہیں گے۔ اللہ اور اس کے رسول کی ہدایات پر عمل پیرا نہیں ہوں گے اور چلتے پھرتے قرآن کی تفسیر نہیں بن جائیں گے اس وقت تک ’’مدینہ‘‘ کی ریاست کا ذکر بھی فضول ہے اور تمنا بھی بیکار۔ ہر پیار میں محبوب کی کچھ شرائط ہوا کرتی ہیں لہٰذا عشق خدا و رسول کی بھی کچھ شرائط ہیں اور یہ بات طے ہے کہ جب تک ان شرائط کو پورا نہیں کیا جائے گا اس وقت تک مدینہ تو دور کی بات ہے، اس ریاست کی گرد کو بھی نہیں پایا جاسکتا۔
اللہ کا بندہ صرف اللہ ہی کے آگے رکوع اور سجدے کی حالت میں اپنے آپ کو جھکایا گرا سکتا ہے اگر اللہ کے سوا کسی اور کے آگے رکوع و سجود کی حالت میں جھک جانا یا گرالینا جائز ہوتا تو میرے نبی ؐ کا فرمان ہے کہ میں بیویوں سے کہتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں۔ ملاحظہ کریں کہ ایسا کرنے کے لیے نبی ؐ نے نہ اپنا ذکر کیا اور نہ ہی کسی پیر و مرشد کے سامنے جھک جانے کا کہا۔ یہی ایمان کی شرط اولین ہے ۔کوئی فرد ایسا کرے گا تو اس کو پھر اپنے ایمان کے متعلق خوب اچھی طرح غور کر لینا چاہیے۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ گناہ کرنے کے بعد تاویلیں یا عذر پیش کرنا گناہ کرنے سے بھی بڑا جرم ہے ۔ اس لیے خدارا اس کا اعادہ نہ کریں اور اپنے پیچھے چلنے والوں کو بھی سمجھائیں۔
یہ تو ہوئی ریاست مدینہ بنانے کی پہلی شرط اگر آپ واقعی اس میں مخلص ہیں تو پھر یہ بھی ضروری ہے کہ آپ کے چہرے مہرے، وضع قطع اور لباس سے بھی گوہیاں ملیں کہ آپ اسی منزل کے راہ رو ہیں۔ آپ نے بہت خوب کہا ہے کہ ایک تو آپ 524 ملازمین کو نہیں پالیں گے صرف دو ملازمین پر اکتفا کریں گے لیکن آپ نے یہ نہیں بتایا کہ باقی 522 افراد کا مستقبل کیا ہوگا۔ اگر وہ پھر بھی موجود رہیں گے تو اخراجات میں کمی کیوں کر ممکن ہو سکے گی اگر ایوان صدر میں ’’صدر‘‘ کے نہ رہنے اور پرائم منسٹر ہاؤس میں وزیراعظم کے نہ رہنے سے اخراجات میں بے پناہ کمی آسکتی ہے تو سابق صدر رفیق تارڑ اور سابق وزیر اعظم خاقان عباسی بھی ان صدور میں اور وزیراعظموں میں سے ایک ہیں جو اپنی اپنی تقرری کے دوران ایوانوں میں نہیں رہے تو کیا ملک کے خزانوں میں اضافہ ہو گیا۔ پارلیمنٹ بھی ایک خوامخواہ کا خرچ ہے۔ اس پر بھی برائے فروخت کا بورڈ لگائیں۔ کیا ایک بہت بڑے کھیل کے میدان میں ٹینٹ لگا کر اجلاس طلب نہیں کیے جاسکتے۔ ویسے بھی وہاں شور شرابے کے علاوہ اور ہوتا بھی کیا ہے اس لحاظ سے کھلا میدان کھل کر جنگ و جدل کے لیے اور بھی زیادہ موزوں ہوگا۔ پہلے دعویٰ تھا کہ ان عمارات کو بلڈوز کر دیا جائے گا اب ان کی جان بخشی کی جانب ایک ’’یوٹرن‘‘ کا آغاز ہے۔ یونیورسٹیاں بنادیا جائے گا کی کہانی بھی پرانی ہے جس کا گرد و غبار جھاڑ کر پھر عوام کے سامنے رکھ دیا گیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان جیسے غریب ملک میں ایسا ہو ہی جانا چاہیے لیکن کیا یہ قابل عمل ہے؟۔ اس کا فیصلہ بھی چند ماہ میں عوام کے سامنے آہی جائے گا۔ کرپشن اور لوٹ مار کے تذکرے آپ کی تقریر میں اس بڑی تعداد میں بھرے ہوئے تھے جیسے پنجابی فلموں میں ہیرو کی بیک وقت سیکڑوں دشمنوں سے لڑائیاں لازمی جزو ہوتی ہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ قومی دولت کی لوٹ مار میں پاکستان کے سیاستدان ہی نہیں، عدالتوں کے جج اور کرنیل جرنیل بھی شریک رہے ہیں جس کا سب سے بڑا ثبوت پاناما لیکس ہیں۔ اگر اشارتاً ہی آپ ان کا ذکر کرجاتے تو آپ کی کرسی خطرے میں پڑجاتی؟۔ ویسے بھی ایک کھلاڑی کا خطروں سے ڈرنا فہم و سمجھ سے باہر ہے۔
قرض لینا ایک سنگین جرم ہے اور قرض لینے والا فرد معاشرے میں سر اٹھا کر نہیں چل سکتا۔ جب ایک مقروض عزت کے قابل نہیں رہتا تو وہ ممالک جو قرض پر قرض لینے کے عادی ہوں وہ اقوام عالم میں کیسے کوئی مقام حاصل کر سکتے ہیں۔ آپ کا فرمان درست ہے کہ اب قوم کو اپنے پیٹ پر پتھر باندھنے کے لیے تیار ہوجائے۔ آپ نے شاید قوم کا جذبہ دیکھا ہی نہیں ہے۔ 20 لاکھ شہید ہوئے 70 ہزار ماؤں بہنوں کی عزتیں تارتار ہوئیں، پاکستان آنے والوں نے ہنستی بستی بستیاں چھوڑیں تب کہیں پاکستان بنا۔ کیا 65کی جنگ بھول گئے۔ کیا پنجاب تا سندھ جو سیلاب آیا تھا تو قوم کی یک جہتی نہیں دیکھی تھی۔ کشمیر کے زلزلے نے سارے پاکستانیوں کو ہلا کر نہیں رکھ دیا تھا۔ ان قربانیوں کے پیچھے پاکستان بنانے والے بانیوں کا کیا کردار تھا۔ اس وقت کے سارے لیڈروں نے قوم سے بڑھ کر اپنا کردار ادا کیا۔ آپ نے درست کہا ہے کہ قوم جب تک قربانیاں نہیں دے گی حالات نہیں بدل سکتے لیکن کیا قوم میں رہبران قوم شامل نہیں ہوتے؟۔ آپ نے فرمایا ہے پاکستان میں صرف 8 لاکھ افراد ٹیکس دیتے ہیں اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہ دائرہ بڑھایا جائے گا یا پھر ٹیکس کی اوسط میں اضافہ ہوگا کیا ہر دو صورتوں میں اس کا بوجھ عوام پر نہیں پڑے گا؟۔ کیا جی ایس ٹی کا بوجھ عوام پر نہیں۔ کیا کوئی مل اونر یا کارخانے دار یا زمیندار ٹیکس اپنی جیب سے دینے کے لیے تیار ہو جائے گا؟۔ آپ ٹیکس کا دائرہ بڑھائیں یا ٹیکس، ہر دو صورتوں میں بوجھ عوام ہی پر پڑتا ہے۔
کہتے ہیں کہ نہ صدر ایوان صدر میں رہے گا اور نہ وزیر اعظم اپنے وزیر اعظم ہاؤس میں، نہ گورنرا اپنے گونر ہاؤسز میں رہیں گے نہ ہی وزرائے اعلیٰ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر وہ کہاں رہیں گے۔ آپ کہتے ہیں کہ وہ کرائے پر رہیں گے۔ کیا آپ سمیت سارے کے سارے بے گھر ہیں جن کے لیے مزید رہائش گاہیں درکا ہوں گی؟۔ آپ نے جن جن مقامات کے اخراجات میں کٹوتی کا عندیا دیا ہے وہ سب کی سب سرکاری ہیں۔ آپ یا آپ کے صدر، وزرائے اعلیٰ اور گورنرز کے ذاتی اخراجات میں کہیں کسی کٹوتی کا اعلان نہیں کیا گیا۔
یہ ساری باتیں کبھی نہ کرتا کسی کی اچھی گفتگو اور اسی کی کہی ہوئی باتوں کو میں اور آگے لیکر نہیں چلتا لیکن بات ’’مدینہ‘‘ کی ریاست کی آگئی۔ ان ہستیوں کا ذکر آگیا جن کی قربانیوں کا پھل آج پوری دنیا کھا رہی ہے تو پھر میں کیوں نہ کہوں کہ ان ساری عظیم ہستیوں نے اپنی قوم سے قربانی دینے کا مطالبہ بعد میں کیا پہلے خود اپنا سارا مال و اسباب آپ ؐ کے قدموں میں ڈھیر کر دیا۔ آپ کو اندازہ نہیں، آپ صرف بنی گالہ ہدیہ کرنے کا اعلان کریں قوم اپنے بدن کے کپڑے تک نچھاور کردے گی۔ جس پیغمبر کا آپ ذکر کر رہے ہیں اس نے اپنے پیٹ پر ایک نہیں دو دو پتھر باندھے تھے پھر دنیا نے بھی دیکھا اس قوم کے آگے روم اور ایران بھی سجدہ ریز ہو گئے۔ اگر ریاست کو مدینے والی فلاحی اسلامی ریاست بنانا ہے تو پھر ایسا ہی کرنا ہوگا ورنہ باتوں کا کیا ہے، ہر حکمران نے کیں سو آپ کی باتیں بھی کانوں کو بہت بھلی لگی ہیں۔