امارت اسلامیہ کی پے در پے پیش قدمی نے کابل انتظامیہ اور قابض افواج کے اعصاب شل کر دیے ہیں۔ امارت اسلامیہ کا سیاسی دفتر بھی پوری طرح فعال ہے۔ سیاسی دفتر کے سربراہ شیر محمد عباس ستانکزئی کی قیادت میں وفد نے چھ سے دس اگست تک ہمسایہ ملک ازبکستان کا دورہ کیا۔ یہ دعوت ازبکستان کی حکومت نے دی تھی جہاں ریلوے لائن، برقی لائنوں، سیکورٹی اور دوسرے سیاسی و ترقیاتی امور پر گفتگو ہوئی۔ اسی طرح بارہ سے پندرہ اگست تک اسلامی ملک انڈونیشیا کا بھی دورہ کیا۔ انڈونیشیا کے نائب صدر محمد یوسف کالا اور وزیر خارجہ رینٹو کار سوری سے ملاقاتیں ہوئیں۔ افغانستان میں امن اور دوسرے مسائل پر بات چیت ہوئی۔ یہاں تک کہ سیاسی دفتر نے چار ستمبر کو ماسکو میں ہونے والے امن مذاکرات میں شامل ہونے کی ہامی بھی بھر لی تھی۔ مذاکرات کا اہتمام روس نے کیا تھا۔ امریکا نے شرکت سے انکار کردیا تو لا محالا کابل انتظامیہ کو روسی حکومت سے کانفرنس کے التواء کی درخواست کرنی پڑی۔ اس کانفرنس میں بارہ ممالک مدعو تھے۔ امارت اسلامیہ کو افغانستان کے اندر سیاسی سطح پر حمایت کی ضرورت ہے۔ اگرچہ حزب اسلامی افغانستان میں جنگ کی مخالف ہے۔ لیکن حزب قطعی غیر مبہم موقف کی حامل ہے۔ اور مطالبہ کرتی ہے کہ قابض غیر ملکی افواج افغانستان سے نکل جائیں۔ گلبدین حکمت یار کابل ہی میں کہہ چکے ہیں کہ طالبان کو جنگ میں دھکیلا گیا ہے۔ اندرونی و بیرونی عوامل ایسے تھے کہ طالبان کے پاس جنگ و مزاحمت کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہ تھا۔
یہ بات سمجھنے کی ہے کہ حزب اسلامی کے پاس بھی کابل انتظامیہ سے مذاکرات و معاہدے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہ تھا۔ حکمت یار عالمی پابندیوں میں جکڑے ہوئے تھے اور دنیا کے کسی بھی ملک کے لیے قابل قبول نہ تھے۔ امارت اسلامیہ یقیناًان حقائق سے لاعلم نہیں ہے۔ حزب اسلامی افغانستان کے اندر موثر سیاسی آواز ہے۔ امارت اسلامیہ کی قیادت سے یہ حقیقت بھی مخفی نہیں ہے کہ افغانستان پر حملے سے قبل امریکا نے گلبدین حکمت یار کو حکومت کی پیش کش کی تھی جس کے برعکس گلبدین حکمت یار نے مزاحمت کا فیصلہ کیا۔ امارت اسلامیہ کو یہ امر بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ گلبدین حکمت یار کمیونسٹ نظریات کے خلاف اولین صف کے سیاسی کار کنوں و رہنماؤں میں شامل تھے۔ یہ تحریک تب شروع ہوئی جب افغانستان کے مطلق العنان حکمران ظاہر شاہ کے دور حکومت میں سوویت یونین کو افغانستان کے اثر و نفوذ حاصل ہو گیا تھا۔ اشتراکی فکر کی ترویج تعلیمی اداروں اور ہر شعبے میں ہونے لگی تھی۔ سردار داؤد
اُن کے دور میں اہم عہدوں پر فائز تھے۔ وہ وزیر اعظم بھی بنائے گئے۔ افغان معاشرے میں اشتراکی نظریات کے پھیلاؤ اور خاندانی حکمرانی کے خلاف اسلامی نظریات کی حامل شخصیات نے بھی تحریک کا آغاز کر دیا تھا۔ یہ تحریک جماعتی ڈھانچے میں ڈھل گئی۔ افغانستان کے تعلیمی اداروں بالخصوص کابل یونیورسٹی میں اسلامی سوچ و فکر رکھنے والے نوجوان اپنے اساتذہ کی تحریک دینے و تربیت کے زیر اثر مضبوط ہوتے گئے۔ مہناج الدین گہیز جو ایک معروف صحافی اور مجلہ ’’گہیز‘‘ کے مدیر اعلیٰ بھی تھے نے تحریر و تقریر کے ذریعے دعوت کا کام شروع کر دیا تھا۔ کابل یونیورسٹی کے شریعہ فیکلٹی کے استاد پروفیسر غلام محمد نیازی نے جو جامعہ ازہر کے فارغ التحصیل تھے، الجماعۃ الاسلامیہ کے نام سے سیاسی جماعت قائم کرلی۔ حزب اسلامی کے امیر گلبدین حکمت یار بھی اس میں شامل ہونے والوں میں تھے۔ ان اساتذہ میں برھان الدین الربانی اور عبدالرب رسول سیاف بھی شامل تھے۔ عبدالرحیم نیازی کی قیادت میں ’’نوجوانان اسلام‘‘ بھی کابل یونیورسٹی میں کمیونسٹوں کے مقابل متحرک تنظیم کے طور پر اُبھری۔ عبدالرحیم نیازی کو زہر دے کر قتل کر دیا گیا۔ مہناج الدین گہیز بھی فائرنگ کر کے قتل کر دیے گئے۔ پروفیسر غلام محمد نیازی اور دوسرے رہنماؤں و کارکنوں کو قید و بند کی تکلیفیں اُٹھانی پڑیں۔ تمام تر انتقامی کارروائیوں، دارو گیر اور مشکلات کے باوجود اسلامی تحریک بتدریج قوی ہوتی گئی۔ دور ظاہر شاہی میں مہناج الدین گہیز نے لاہور کے علاقے اچھرہ میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ سے ملاقات کی اور افغانستان کے حالات سے آگاہ کیا۔ مولانا مودودی مرحوم نے ان کو صبر و حکمت سے اسلامی فکر کی تبلیغ، افغان عوام کی سیرت و ذہن سازی کی ہدایت و نصیحت کی۔
اس دور میں اسلامی تحریک سے وابستہ لوگوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے گئے، ان کے خلاف ریاستی طاقت کا بھر پور استعمال کیا گیا۔ جب سردار داؤد نے ظاہر شاہ کو اقتدار سے بے دخل کر دیا تو اسلامی تحریک کے رہنماؤں اور نوجوانوں پر مزید سختیاں روا رکھیں۔ پروفیسر برہان الدین ربانی، گلبدین حکمت یار اور دوسرے نوجوانوں نے پاکستان میں پناہ لے لی۔ سید مودودی ؒ نے ان افغان رہنماؤں کو ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کرنے کا مشورہ دیا۔
مولانا مودودی ایک معاملہ فہم اور دور اندیش شخص تھے۔ ان کی افغانستان کے بدلتے ہوئے حالات پر نہ صرف گہری نگاہ تھی بلکہ اُنہیں اشتراکیت کے غلبے اور اس کی اساس کا پوری طرح ادارک حاصل تھا۔ مولانا مرحوم کو معلوم تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو قومی مفاد کے تحت اس خطرے کو نظر انداز نہیں کریں گے۔ اس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے اس جملہ صورت حال پر پوری توجہ دی۔ آخری دنوں میں سردار داؤد کو بھی روسی خطرات کا اندازہ ہو گیا تھا۔ داؤد نے سعودی عرب کو یقین دلایا کہ وہ پاکستان کی سالمیت کا مکمل طور پر احترام کریں گے۔ جب سردار داؤد نے پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تو اُن کے خلاف 1978ء کا کمیونسٹ فوجی انقلاب برپا کیا گیا۔ چناں چہ افغانستان آزمائش کے ایک نئے دور میں داخل ہو گیا۔ افغان عوام نے اپنے قائدین کی سرپرستی میں جہاد کا علم بلند کیا اور کامیاب ہو گئے۔ پاکستان کے اس وقت کے حکمرانوں اور کوتاہ اندیش عسکری حکام نے اس جیت کو تقریباً شکست میں بدل دیا۔ اور افغانستان لاقانونیت اور طوائف الملوکی کے ایک نئے فتنے سے دوچار ہوا۔ افغانستان میں ہونے والی سازشوں کا نشانہ دراصل گلبدین حکمت یار تھے۔ جن کی حکومت پاکستان، ایران، امریکا، روس اور چین کو قبول نہ تھی۔
گلبدین حکمت یار نے 1974ء میں حزب اسلامی کی بنیاد رکھی۔ حزب طویل پابندیوں اور قیادت کی روپوشی کے باوجود آج بھی افغانستان کی ایک اہم اور بڑی و توانا اسلامی، نظریاتی اور جمہوری جماعت ہے۔ حزب اسلامی نے افغانستان میں سیاسی عمل کی ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ لیکن حزب اسلامی کی عوام میں پزیرائی اور پرواز غنیم کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ گویا امارت اسلامیہ (طالبان) اُسی جہد و مقاومت ہی کا تسلسل ہے جس کا آغاز افغانستان میں الحادی نظریات اور روسی غلبے کے خلاف ہوا تھا۔ گلبدین حکمت یار امارات اسلامیہ سے متعلق حسن ظن رکھتے ہیں۔ جو کہتے ہیں کہ ’’طالبان اب بہت تجربہ کار ہو چکے ہیں اور یہ ثابت کر دیا کہ وہ نہ صرف جنگی قوت ہیں بلکہ سیاسی قوت کے طور پر اُبھرے ہیں۔ اور ایک جنگی جہادی وسیاسی قوت کی حیثیت سے مذاکرات میں حصہ لیں گے اور امریکا اب اگر روس کا تعاون بھی حاصل کر لے تو یہ جنگ جیت نہیں سکتا‘‘۔ گلبدین حکمت یار یہ قرار دے چکے ہیں کہ ماسکو اور واشنگٹن اپنے اختلاف کسی اور جگہ پالیں۔ اپنی رقابتوں میں افغانوں کو قربان نہ کریں۔ حزب اسلامی کے سربراہ نے ایران اور عرب ممالک کو بھی پیغام دیا کہ وہ اپنی سیاسی، نظریاتی، مذہبی اور معاشی و اقتصادی اختلافات کی افغانستان منتقلی سے گریز کریں۔ پاکستان اور ایران کو بھی مخاطب کیا ہے کہ اس جنگ کے شعلے ایک دن اُن کے دامن تک پہنچیں گے۔ حکمت یار کے مطابق ایران نے ہمیشہ افغانستان میں جنگ کو ترجیح دی ہے اور گزشتہ تیس سال سے افغانستان میں جنگ کو ہوا دے رہا ہے۔ افغان جنگ کی وجہ سے پاکستان کے اندر مختلف مسلح گروہ پیدا ہوئے جنہوں نے ان کے خلاف ہتھیار اُٹھا رکھے ہیں۔ گلبدین حکمت یار افغانستان کے آئندہ ہونے والے انتخابات کے حوالے سے بھی متفکر ہیں۔ اُنہیں یہ اندیشہ لاحق ہے کہ کہیں حزب اسلامی کی کامیابی کی صورت میں افغان ایک بار پھر جنگ کے دہانے پر نہ پہنچا دیے جائیں۔ امارت اسلامیہ کے امیر مولوی ہبتہ اللہ اخوندزادہ نے عیدالاضحی پر اپنے پیغام میں سعودی عرب کو اسلامی و ایمانی رشتے کی طرف توجہ دلائی۔ گویا کہ سعودی عرب امریکی مفادات کے بجائے افغانوں کی جدوجہد اور قربانیوں کا احترام کرے۔ القصہ حزب اسلامی اور امارت اسلامیہ، افغانستان کی دو بڑی سیاسی قوتیں ہیں۔ ان دونوں جماعتوں کی قربت وسیاسی ہم آہنگی افغانستان اور افغان عوام کے عظیم مفاد، نیز کسی بھی ملک کی افغانستان میں مداخلت کے تدارک کے لیے لازم ہے۔